السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ لوگ ’’ض‘‘ کو ضادّ کے بجائے ’’دواد‘‘ پڑھتے ہیں، وضاحت کریں۔ کیونکہ قرآن میں کئی مقام پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا اس کی غلطی سے مفہوم بھی بدل سکتا ہے ؟(محمد مسعودP.P، کوٹلی، آزاد کشمیر)(۲۹ دسمبر۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصل بات یہ ہے کہ ’’ضاد‘‘ اور ’’ظاء‘‘ دونوں قریب المخرج ہیں۔ زبان کی کروٹ(کنارہ) جب اُوپر کی داڑھوں کی جڑ سے لگے تو وہاں سے ’’ض‘‘ نکلے گا۔ اور اگر زبان کی نوک ثنایا علیا(اوپر کے دو درمیان والے دانتوں ) کے کنارے سے لگے تو ظاء نکلتا ہے۔ پھر دونوں حروف صوتی صفات کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں(یعنی حروفِ مجہورہ، رخوہ، مطبقہ سے ہیں) اس بناء پر علماء نے کہا ہے کہ جو دونوں کے مخارج(ادائیگی) میں تمیز نہ کر سکے کہ اس سے اگر کوئی تبدیلی ہو جائے تو کوئی حرج نہیں۔(تفسیر القرآن:۴۵/۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب