السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا قرآن کی صرف تلاوت ہی کی جا سکتی ہے یا اسے غوروفکر کے نقطۂ نظر سے عام کتاب کی طرح خاموشی سے بھی پڑھا جا سکتا ہے کہ آدمی کے ہونٹ نہ ہلیں۔ اکثر خواہش پیدا ہوتی ہے کہ قرآن کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے دوسری کتابوں کی طرح خاموشی سے بار بار پڑھا جائے کہ الفاظ کے معنی بھی سمجھ میں آئیں۔ میری عادت ہے کہ اونچی آواز سے یا لب ہلا کر پڑھنے سے سمجھ نہیں آتی۔ اور فقرے (آیات) ذہن نشین نہیں ہوتے۔ ازراہِ کرم تفصیل سے روشنی ڈالیں۔(احمد فیاض۔ گوجرانوالہ) (۲۴ دسمبر۱۹۹۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن مجید کی تلاوت بہ آوازِ بلند اور آہستہ دونوں طرح درست ہے۔ لیکن آہستہ سے مراد یہ نہیں کہ ہونٹ بھی ہلنے نہ پائیں۔ بلکہ آہستہ کم از کم اتنا ہونا چاہیے کہ قراء ۃ آدمی کے دونوں کانوں کو سنائی دے اور دل اس کو یاد کرے ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
’فَاقْرَأْ قِرَاءَةً تُسْمِعُهَا أُذُنَیْكَ وَیُوعِهَا قَلْبُكَ‘ (فتح الباری:۸۹/۹)
پھر قراء ت کے اوصاف میں سے ترتیل، ترجیع، حسن صوت اور مد قراء ت وغیرہ ہے۔ ان اشیاء کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک انسان اپنے ہونٹوں کو حرکت میں نہ لائے۔ ان صفات کے اثبات کے لیے امام بخاری علیہ السلام نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں متعدد ابواب قائم کیے ہیں۔ کوشش کریں کہ بوقت ِ تلاوت ہونٹوں میں حرکت پیدا ہو۔ عادت بن گئی تو آسانی سے یاد بھی ہو جائے گا اور معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لیے غوروتدبر ہی مطلوب ہے ۔ جس کی کوئی سی صورت بن سکتی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب