السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
گزارش یہ ہے کہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے ضمن میں درج ذیل روایت کی تحقیق مقصود ہے۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک دن دوپہر کو نبی ﷺ کو خواب میں دیکھا۔ آپ ﷺ کے بال بکھرے اور گرد آلود ہیں، آپ کے ہاتھ میں خون کی ایک بوتل ہے میں نے کہا میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں یہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ حسین رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے اسے میں صبح سے اکٹھا کررہا ہوں۔ پھر میں نے اس وقت کو یاد رکھا تو معلوم ہوا کہ اسی وقت وہ شہید ہوئے تھے۔ (مظاہر حق قدیم، ج:۵، ص:۷۳۸۔ مشکوٰة المصابیح، ج:۲، ص:۶۱۷۔ بحوالہ دلائل النبوة البیهقی: ۴۷۱/۶۔ مسند احمد: ۲۴۲/۱)
1… کیا یہ روایت صحیح ہے؟ سنداً، درایتاً
2… ابن عباس رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ان کو بعد میں معلوم ہوتا ہے لیکن نبیﷺ کا بحالت فوتگی (قبر مبارک سے کربلا تک گرد آلود ہوکر جانا) حسین رضی اللہ عنہ کے کربلا کے سفر کی خبر ہوجانا، پھر بنفس نفیس وہاں خون اکٹھا کرنا کیسے ممکن ہے؟
3… کیا یہ قرآنی عقیدۂ اموات کے خلاف نہیں ہے؟
4… اس روایت سے تو بریلوی، دیوبندی عقیدہ (آپ ﷺ کی دنیاوی حیات) ثابت ہوتا ہے۔ صرف حیات ہی نہیں بلکہ ہر ہر اعمال کی خبر اور وہاں مدد مقصود ہوتو پہنچنا وغیرہ باطل عقائد کا ثبوت فراہم ہورہا ہے۔ قرآن وحدیث سے جواب دے کر عنداللہ ماجور ہوں۔ (سائل: سراج احمد، اٹک) (یکم جون ۲۰۰۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مندرجہ بالا روایت صحیح ہے لیکن یہ واقعہ خواب کا ہے غیر نبی کی خواب سے شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے۔
بحالت خواب آدمی بعض دفعہ وسیع وعریض مناظر کا مشاہدہ کرتا ہے جس کا احاطہ کرنا بحالت بیداری ناممکن ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اگرچہ زندہ ہیں لیکن بیان کردہ منظر تو خواب کا ہے جو اثبات شریعت کے لیے قابل حجت نہیں۔ لہٰذا مذکورہ قصہ یہ کوئی ایسی شے نہیں جس پر استعجاب کا اظہار کرکے قرآنی عقیدہ اموات کے خلاف قرار دیا جاسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ خوابی اور برزخی مناظر ومشاہدات سے دنیاوی احکام ثابت کرنا کم عقلی ہے۔ ذی علم اور فہم وفراست کے حاملین کا شیوہ نہیں کیوں کہ وہ تعبیر خواب اور تعبیر شریعت کے تفاوت کو ملحوظ رکھ کر میزانِ عدل کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ پھر اس سے باطل عقیدہ کو ثابت کرنے کی سعی وہی شخص کرے گا جو شرعی احکام سمجھنے سے قاصر ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب