السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رسول اللہﷺ نے امیر المومنین یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنتی کیوں کہا؟(ناصر محمود لوہیانوالہ۔ گوجرانوالہ) (۲۳ مئی ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کسی صحیح حدیث میں اس بات کی تصریح نہیں کہ نصتًا رسولِ اکرمﷺ نے یزید بن معاویہ کو جنتی قرار دیا ہو۔ البتہ بعض شارحین نے فرمانِ رسول اللہﷺ:
’ اَوَّلُ جَیْشٍ مِنْ اُمَّتِیْ یَغْزُوْنَ مَدِیْنَة الْقَیْصَرِ مَغْفُوْرٌ لَّهُمْ‘(صحیح البخاری، باب ما قیل فی قتال الروم، رقم:۲۹۲۴)
یعنی میری امت کا پہلا لشکر جو مدینہ قیصر یعنی قسطنطنیہ پر حملہ آور ہو گا انھیں معاف کیا ہوا ہے۔‘‘
سے یہ سمجھا ہے کہ یہ وہی غزوہ ہے جو ۵۲ ہجری میں یزید کی قیادت میں ہوا تھا۔ (فتح الباری:۱۰۲/۶۔۱۰۳)
جب کہ مدینہ قیصر پر اس سے پہلے بھی ایک غزوہ ہو چکا تھا۔ اور وہ غزوہ ہے جو حضرت عبدالرحمن بن خالد بن الولید کی قیادت میں ہوا ہے۔ملاحظہ ہو سنن ابوداؤد، باب فی قولہ تعالیٰ ﴿وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِ﴾لیکن اس میں یہ شبہ باقی رہ جاتا ہے کہ جامع ترمذی کی روایت میں عبدالرحمن کی بجائے فضالہ بن عبید کا ذکر ہے۔ ان کا انتقال سن ۵۸ میں ہوا۔ اس صورت میں امکان موجود ہے کہ غزوہ ہذا سن ۵۲ ہجری کے بعد ہوا ہو ، لیکن حضرت عبدالرحمن کا انتقال سن ۵۲ ہجری سے قریباً پانچ سال قبل ہوا ہے۔ اس صورت میں یہ غزوہ حتمی طور پر سن ۵۲ ہجری سے پہلے ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب