سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(732) صحابہ کرام کے متعلق درست موقف

  • 25847
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1438

سوال

(732) صحابہ کرام کے متعلق درست موقف

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 تاریخ کے ایک طالب علم کے اس سوال کا کیا جواب دیا جا سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور جناب امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  میں سے باغی کون ہے ؟ قصاص ِ عثمان رضی اللہ عنہ  کا مطالبہ ایک سیاسی چال اور اقتدار چھوڑنے سے انکار کے بہانے کے لیے استعمال کیا گیا ؟(سائل) (۱۱ جون ۲۰۰۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ  دونوں حق پر تھے، وجہ نزاع محض اجتہادی تھی جس کی بنا پر کسی پر کوئی مواخذہ نہیں، بلاشبہ وہ سب جنتی ہیں،(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ) قصۂ عمار کی بنا پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ  کے گروہ پر باغی کا اطلاق کرنا درست نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ حضرت عمار کا قاتل وہی باغی گروہ ہے جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کو شہید کیا، یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی فوج میں شامل تھے۔ نامور محقق حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں:

’’گھمسان کے رَن میں عین ممکن ہے کہ حضرت علی کی فوج میں شامل گروہِ باغی ہی کے ہاتھوں انہی کی فوج کے چند آدمی بھی مارے گئے ہوں جن میں حضرت عمار رضی اللہ عنہ  بھی شامل ہو ں یا پھر ان ہی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ  کے کچھ افراد گروہِ معاویہ میں محض اس بنا ء پر شامل ہو گئے ہوں کہ اس طرح ان کی طرف سے لڑتے ہوئے حضرت عمار رضی اللہ عنہ  کو شہید کرکے گروہِ معاویہ رضی اللہ عنہ  کو گروہِ باغی باور کرانے کی کوشش کریں۔‘‘  (خلافت و ملوکیت،ص: ۳۸۰)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ  کا کہنا ہے کہ الفاظ حدیث’تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ‘ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ  اور ان کے اصحاب کے باغی ہونے پر نص نہیں، چنانچہ وہ اس کی ایک توجیہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’ ثُمَّ إِنَّ عَمَّارًا تَقْتُلُهُ الْفِئَةُ الْبَاغِیَةُ لَیْسَ نَصًّا فِی أَنَّ هٰذَا اللَّفْظَ لِمُعَاوِیَةَ وَ أَصْحَابِهٖ بَلْ یُمْکِنُ أَنَّهٗ أُرِیْدَ بِهِ تِلْكَ الْعِصَابَةُ الَّتِیْ حَمَلَتْ عَلَیْهِ حَتّٰی قَتَلَتْهُ وَ هِیَ طَائِفَةٌ مِنَ الْعَسْکَرِ ، وَ مَنْ رَضِیَ بِقَتْلِ عَمَّارٍ کَانَ حُکْمُهٗ حُکْمَهَا ، وَ مِنَ الْمَعْلُوْمِ أَنَّهٗ کَانَ فِی الْعَسْکَرِ مَنْ لَمْ یَرْضَ بِقَتْلِ عَمَّارٍ کَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرِو ابْنِ الْعَاصِ وَغَیْرِهٖ بَلْ کُلُّ النَّاسِ کَانُوْا مُنْکِرِیْنَ لِقَتْلِ عَمَّارٍ حَتّٰی مُعَاوِیَةَ وَ عَمْرٍو۔‘ (فتاویٰ ابن تیمیة، ج:۴، ص: ۲۲۶)

’’ممکن ہے اس سے مراد گروہ کے وہ افراد ہوں جنھوں نے حضرت عمار پر حملہ کرکے انھیں قتل کردیا، اور وہ لشکر میں شامل تھے،نیز جو شخص عمار کے قتل پر راضی تھا اس کا حکم بھی ان جیسا ہو گا ورنہ یہ بات معلوم ہے کہ لشکر میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو عمار کے قتل پر راضی نہ تھے جیسے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  وغیرہ ہیں بلکہ سب لوگ عمارکے قتل کے منکر تھے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمرو رضی اللہ عنہ  بھی اس زمرہ میں شامل ہیں۔‘‘

جہاں تک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ  کے قصاص کے مطالبہ کا تعلق ہے تو وہ مطالبہ فردِ واحد کا نہیں تھا جو اقتدار کے لیے کوشاں ہو بلکہ ہر طرف سے اس کو عوامی تائید حاصل تھی۔ موصوف مذکور فرماتے ہیں کہ جب پوری مملکت میں مطالبہ ٔ قصاص کی آواز گونج رہی تھی جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے بحیثیت گورنر شام عوامی آواز کو عملی اقدام دینے کے لیے وجہ جواز پوری طرح موجود تھی لیکن پھر بھی ایسا نہیں کیا بلکہ ان کو گورنری طاقت استعمال کرنے پر خود حضرت علی رضی اللہ عنہ  نے مجبور کیا ورنہ بحیثیت گورنر انھوں نے کبھی نہ مطالبہ کیا۔ ان پر گورنری کی طاقت استعمال کرنے کا الزام اس وقت چسپاں ہوسکتا تھا اگر وہ مطالبے کے ساتھ یہ حکم بھی دیتے کہ مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں بذریعہ طاقت یہ مطالبہ پورا کیا جائے گا لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ پر امن طریقے سے مطالبہ قصاص کرتے رہے تاآنکہ انھیں طاقت استعمال کرنے پر مجبور کردیا گیا۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ قصاص عثمان رضی اللہ عنہ  کے مطالبہ میں کوئی سیاسی چال مضمر نہ تھی جس سے اقتدار چھوڑانا مقصود ہو بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے رویہ سے حالات نے پلٹا کھایا۔ ما شاء اللہ کان۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:517

محدث فتویٰ

تبصرے