سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(720) ٹیچر وغیرہ کے احترام میں کھڑے ہونا؟

  • 25835
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-01
  • مشاہدات : 2281

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام درج ذیل مسائل کے بارے میں کہ:

۱۔         آج کل تقریباً تمام اسکولوں میںیہ روایت پایا جاتا ہے کہ جب کوئی ٹیچر کسی کلاس میں جاتا ہے تو سب بچے اپنی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب تک استاد کرسی پر نہ بیٹھے یا بچوں کو نیچے بیٹھنے کا حکم نہ دے پوری کلاس کھڑی رہتی ہے۔ اسی طرح جب کوئی عالم دین کسی کے پاس ملاقات کے لیے جاتا ہے تو وہ لوگ بھی اپنی جگہ پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جب تک وہ نہ بیٹھے کھڑے رہتے ہیں۔ اوراسی طرح اسکولوں میں جب ہمارا قومی ترانہ گایا جاتا ہے تو اساتذہ سمیت تمام طلباء سجدہ کی جگہ نظریں جمائے کھڑے رہتے ہیں، تو کیا یہ قیام کتاب و سنت کی روشنی میں جائز ہے یا حرام؟ مدلل و مفصل تحریر فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ ہذا میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ ایک گروہ اساتذہ کرام اور بڑے بزرگوں وغیرہ کے لیے بطورِ احترام کھڑے ہونے کا قائل ہے۔ ان میں سے امام نووی اور غزالی رحمہ اللہ  وغیرہ ہیں۔ ان کا استدلال

فرمانِ نبویﷺ ’قُوْمُوْا اِلٰی سَیِّدِکُمْ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا نَزَلَ العَدُوُّ عَلَی حُکْمِ رَجُلٍ، رقم: ۳۰۴۳،سنن ابی داؤد،رقم:۵۲۱۵،۵۲۱۶) سے ہے۔ ابن بطال شارح بخاری نے کہا ہے:

’فِی هَذَا الْحَدِیثِ أَمْرُ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ بِإِکْرَامِ الْکَبِیرِ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَمَشْرُوعِیَّةُ إِکْرَامِ أَهْلِ الْفَضْلِ فِی مَجْلِسِ الْإِمَامِ الْأَعْظَمِ وَالْقِیَامِ فِیهِ لِغَیْرِهِ مِنْ أَصْحَابِهِ وَإِلْزَامُ النَّاسِ کَافَّةً بِالْقِیَامِ إِلَی الْکَبِیرِ مِنْهُمْ  ۔‘ (فتح الباری:۴۹/۱۱)

اور جو لوگ منع کے قائل ہیں ان کا استدلال ابوامامہ کی روایت سے ہے کہ آپﷺ عصا پر ٹیک لگائے نکلے۔ ہم آپﷺ کے لیے کھڑے ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا: عجمیوں کی طرح ایک دوسرے کے لیے کھڑے مت ہوں۔ امام طبری رحمہ اللہ  نے اس حدیث کا جواب دیا ہے کہ اس کی سند میں اضطراب ہے۔ اور اس میں راوی غیر معروف ہیں۔ اور اسی طرح ان کا استدلال آپ کے اس ارشاد سے ہے:

’ مَنْ أَحَبَّ أَنْ یَتَمَثَّلَ لَهُ بَنُو آدَمَ قِیَامًا وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ.‘ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:۸۵۲، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی کَرَاهِیَةِ قِیَامِ الرَّجُلِ لِلرَّجُلِ،رقم:۲۷۵۵)

امام طبری رحمہ اللہ  نے اس کا جواب یوں دیا ہے :’’  اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو کھڑا ہونے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اکرام کے لیے اس میں نہی کا ذکر نہیں۔‘‘

 اور ابن قتیبہ نے جواب یوں دیا :’’ اس سے مراد سر پر کھڑے رہنا ہے۔ جس طرح کہ عجمی شاہان کی عادت تھی اور ابن بطال نے جواز کے لیے نسائی کی روایت سے استدلال کیا ہے۔

رسول اللہﷺ فاطمہ رضی اللہ عنہا  کو آتے دیکھ کر خوش آمدیدکہتے پھر کھڑے ہو کر اس کا بوسہ لیتے پھر ہاتھ پکڑکر اپنی جگہ بٹھا لیتے۔‘‘

یہ روایت ترمذی، اور ابوداؤد وغیرہ میں بھی ہے اور قصہ توبہ کعب بن مالک میں ہے:

’ فَقَامَ اِلَیَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبِیْدِ اللّٰهِ یُهَرْوِلُ ‘(صحیح البخاری،بَابُ حَدِیثِ کَعْبِ بْنِ مَالِكٍ…الخ ،رقم:۴۴۱۸،سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی إِعْطَاء ِ الْبَشِیرِ، رقم: ۲۷۷۳)

’’یعنی طلحہ بن عبید اللہ میری طرف دوڑتے ہوئے آئے۔‘‘

اس طرح کے بہت سارے دلائل جانبین سے دیے جاتے ہیں۔ ابن الحاج نے ’’المدخل‘‘ میں امام نووی رحمہ اللہ  کے جملہ مستندات کے جوابات دینے کی سعی کی ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے ’’فتح الباری‘‘ میں سوال و جواب کی طویل بحث کی ہے جو ایک محقق کے لیے بے حد مفید ہے۔

اختتام بحث پر امام غزالی کے نظریہ کو پسند فرمایا :

’الْقِیَامُ عَلَی سَبِیلِ الْإِعْظَامِ مَکْرُوهٌ وَعَلَی سَبِیلِ الْإِکْرَامِ لَا یکره ‘ (۵۴/۱۱)

’’کسی کی بڑائی کے لیے کھڑا ہونا مکروہ اور عزت و احترام کی خاطر کھڑا ہونا جائز ہے۔‘‘

و ھٰذَا تَفْصِیْل حَسَنٌ  یہ اچھی وضاحت ہے۔

فی الواقع دونوں طرف روایات موجود ہیں۔ جواز کے اعتقاد کے باوجود احتیاط اس میں ہے کہ بطورِ اکرام کھڑا نہ ہو اس لیے کہ عام حالات میں صحابہ کرام رسول اللہﷺ کے لیے کھڑے نہیں ہوتے تھے۔ بسا اوقات آپ نے منع بھی فرمایا سوال میں مرقوم پہلی دونوں صورتیں تو قطع نظر احترام کے محض ایک عادت مستمرہ معلوم ہوتی ہیں۔ کتاب و سنت یا سلف صالحین کے عمل سے اس کی مثال ملنی مشکل ہے لہٰذا اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ اور قومی ترانہ کے احترام میں کھڑا ہونا تو قطعاً بدعت ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا:

’ مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَا لَیْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:۲۶۹۷)

’’ یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:510

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ