السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ملاقات کے وقت مصافحہ کرنے اور سلام کہنے کا حکم تو ہے کیا واپسی کے وقت سلام کہنا اور مصافحہ کرنا کسی حدیث سے ثابت ہے ؟ مصافحہ ایک ہاتھ سے کرنا چاہیے یا دو سے؟ (ایک سائل) (۳ اکتوبر۱۹۹۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زائر کا واپسی کے وقت سلام کہنا بھی مسنون ہے۔ چنانچہ ’’سنن ابی داؤد‘‘ میں حدیث ہے:
’إِذَا انْتَهَی أَحَدُکُمْ إِلَی الْمَجْلِسِ، فَلْیُسَلِّمْ فَإِذَا أَرَادَ أَنْ یَقُومَ، فَلْیُسَلِّمْ فَلَیْسَتِ الْأُولَی بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ‘ (سنن ابی داؤد،بَابٌ فِی السَّلَامِ إِذَا قَامَ مِنَ الْمَجْلِسِ،رقم:۵۲۰۸)
’’یعنی جب ایک تمہارا مجلس میں آئے تو سلام کہے پس جب اٹھ کر جائے پھر بھی سلام کہے۔ پہلے سلام کی شرعی حیثیت دوسرے سے زیادہ نہیں۔‘‘
مقصد یہ ہے دونوں دفعہ سلام کہنا مسنون ہے۔
اور جہاں تک مصافحہ کا تعلق ہے ۔ سو اس بارے میں عرض ہے اگر تو رخصت ہونے والا مسافر ہے۔ اس سے مصافحہ کا جواز ہے۔ چنانچہ ترمذی میں حدیث ہے:
’کَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَدَّعَ رَجُلًا أَخَذَ بِیَدِهِ، فَلَا یَدَعُهَا حَتَّی یَکُونَ الرَّجُلُ هُوَ یَدَعُ یَدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ۔‘ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات ، باب ما یقول اذا ودّع انسانا ،رقم:۳۴۴۲)
’’یعنی نبیﷺ جب کسی آدمی کو الوداع کرتے تو اس کا ہاتھ پکڑ لیتے اُسے نہ چھوڑتے حتی کہ آدمی نبیﷺ کے مبارک ہاتھ کو چھوڑتا۔ پھر مسافر کو رخصت کرتے وقت آپﷺ یہ دعا پڑھتے۔
’اسْتَوْدِعِ اللَّهَ دِینَكَ وَأَمَانَتَكَ وَآخِرَ عَمَلِكَ ‘
بظاہر یہ حدیث مسافر سے مصافحہ پر دالّ ہے۔(واللہ اعلم) اور اگر رخصت ہونے والا غیر مسافر ہے تو اس سے مصافحہ کے بارے میں کوئی مرفوع صحیح حدیث ثابت نہیں۔ اور نہ ہی کوئی صحیح اثر موجود ہے۔ لہٰذا مصافحہ سے اجتناب کرنا چاہیے۔
مصافحہ صرف ایک ہاتھ سے مسنون ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث وارد ہیں۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں:
’أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا صَافَحَ الرَّجُلَ لَمْ یَنْزِعْ یَدَهُ مِنْ یَدِهِ حَتَّی یَکُونَ هُوَ الَّذِی یَنْزِعُ یَدَهُ …۔‘ (سنن الترمذی، بحواله مشکاة المصابیح للالبانی ،رقم:۵۸۲۴)
’’یعنی رسول اللہﷺ جب کسی آدمی سے مصافحہ کرتے اپنے ہاتھ کو اُس کے ہاتھ سے جدا نہ کرتے یہاں تک کہ وہ آدمی اپنا ہاتھ جدا کرتا۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
’ قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ مِنَّا یَلْقَی أَخَاهُ أَوْ صَدِیقَهُ أَیَنْحَنِی لَهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَیَلْتَزِمُهُ وَیُقَبِّلُهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَیَأْخُذُ بِیَدِهِ وَیُصَافِحُهُ؟ قَالَ:نَعَمْ۔‘ (سنن الترمذی، باب المصافحة،رقم:۲۷۲۸)
اور تیسری روایت حدیث الودیع ہے جو پہلے گزر چکی ہے وغیرہ وغیرہ۔
مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ۔ (المقالة الحسنی۔ مؤلفہ محدث عبدالرحمن مبارکپوری۔ رحمة اللہ علیہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب