کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید بیمار ہے اور معذور ہے نہ کھڑا ہو سکتا ہے اور نہ تشہد میں ٹھیک بیٹھ ہی سکتا ہے سجدہ بھی نہیں کر سکتا۔ کیا اس صورت میں زید کو امام بنایا جا سکتا ہے؟ اور زید کی اقتداء میں نماز درست ہو گی؟ یہ بات پیش نظر ہے کہ زید عالم ، متقی اور پرہیز گار ہے۔
صورہ مسئولہ میں واضح ہو کہ اگر زید عالم و متقی ہے اور ہمیشہ سے کسی مسجد کا امام ہے تو وہ شرعاً بوجہ ضرورت کے امامت کرا سکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی اور عالم اور متقی شخص جو صحیح و سالم تندرست ہو اور ارکان نماز کو پورے طور پر ادا کرسکتا ہو تو اس کو امام بنانا بہتر ہے۔ کیونکہ رکوع و سجود نماز کے ضروری رکن ہیں جب وہ ان سے قاصر ہے تو دوسرے عالم صحیح و سالم کے ہوتے ہوئے اس کو امام نہ بننا چاہیے۔ حدیث دارقطنی وغیرہ میں آیا ہے۔
»اِجْعَلُوْا اَئمتَکُمْ خِیَارَکُمْ »الحدیث
پس جہاں خریت نماز بذریعہ قرأت و تقویٰ ہوتی ہے وہاں خریت نماز بذریعہ ادائیگی ارکان نماز و تعدیل ارکان بھی ضروری ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب امام صلوٰۃ کر دیا تھا کیونکہ آپ بوجہ مرض کے امامت صلوٰۃ نہیں کرا سکتے تھے اور مریض شخص بوجہ مرض کے نہ تعدیل ارکان صلوٰۃ کر سکتا ہے اور نہ ارکان صلوٰۃ کو ادا کر سکتا ہے۔ چنانچہ زید مسئول تشہد اور سجدہ ہی نہیں کر سکتا تو وہ ایسی حالت میں ادائیگی فریضہ صلوٰۃ سے قاصر ہے اس کو اپنا نائب دوسرے صحیح و سالم شخص کو بنا لینا چاہیے۔ (از مولانا عبد الجبار کھنڈیلوی۔ الاعتصام جلد نمبر ۷ شمارہ نمبر ۴۳)