سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(690) فوٹو کی شرعی حیثیت

  • 25805
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3510

سوال

(690) فوٹو کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

دورانِ مطالعہ فوٹو کے جواز کے متعلق کچھ ضعیف و غریب روایات نظر سے گزریں کہ جن کے حوالے میں فی الوقت نہیں دے سکتا۔ دوسرے یہ کہ علمائے حنابلہ نے تصویر کے جواز کا فتویٰ دیا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب کے علماء نے کرنسی نوٹوں پر تصویر کے جواز کی بنیاد کن دلائل پر رکھی ہے۔ یہ سوال تو پراگندہ سا ہے مگر درست رہنمائی تو آپ جیسے اہل نظر عبقری صلاحیتوں کے مالک شیوخ ہی کر سکتے ہیں۔

ازراہِ مہربانی یہ ارشاد فرمائیں، فوٹو کے جواز کے بارے میں یہ روایات کہیں یکجا مل سکتی ہیں۔د وسرے یہ کہ اگر ذخیرہ احادیث میں ان کا کسی نہ کسی حد تک وجود بھی ملتا ہو اور موجودہ دنیا کا نظام بھی اسی’’غیر شرعی‘‘ فتنے پر چل رہا ہوتو اس معاملے میں اس حد تک شدت روا رکھنا کیونکر مناسب ہے۔(ایک سائل)( ۲ مارچ ۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اسلامی شریعت میں بے شمار نصوص ایسی ہیں جو تصویر کشی کی حرمت پر دال ہیں۔ چند ایک ملاحظہ فرمائیں۔

۱۔         ’ کُلُّ مُصَوّر فی النار‘(صحیح مسلم،بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَةُ بَیْتًا فِیهِ کَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ،رقم:۲۱۱۰)

’’ہر مصور جہنم رسید ہو گا۔‘‘

۲۔        حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اس سے بڑا ظالم کون ہو گا جو میری طرح تخلیق کرنی چاہتا ہے۔(اگر ان میں طاقت ہے) توایک ذرہ پیدا کرکے دکھائیں یا ایک دانہ بنا کر دکھائیں یا ایک بال پیدا کرکے دکھائیں۔(صحیح مسلم،بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَةُ بَیْتًا فِیهِ کَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ،رقم:۲۱۱۱،صحیح البخاری،رقم:۷۵۵۹)

۳۔        حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  فرماتے ہیں، میں نے آنحضرت ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے دنیا میں کوئی تصویر بنائی تو اُسے قیامت کے دن یہ حکم دیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے، حالانکہ وہ اس میں روح نہیں پھونک سکے گا۔(صحیح مسلم،بَابُ لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَةُ بَیْتًا فِیهِ کَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ،رقم:۲۱۱۰،صحیح البخاری،رقم:۲۲۲۵)

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کی تصویر حرام ہے۔ خواہ اس کا سایہ ہو یا نہ ہو، ہاتھ سے بنائی گئی ہو یا کیمرہ سے نبیﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ  کو بھیجا تھا کہ وہ جس تصویر کو یا بت کو بھی دیکھیں اُسے مٹا ڈالیں۔ (صحیح مسلم،بَابُ الْأَمْرِ بِتَسْوِیَةِ الْقَبْرِ،رقم:۹۶۹، المستدرك للحاکم،کتاب الجنائز،رقم:۱۳۶۶)

اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ اگر کوئی دوبارہ ان میں کسی چیز کا ارتکاب کرے اس نے دین و شریعت کا انکار کیا۔ جسے حضرت محمد مصطفیﷺ پر نازل کیا گیا ہے۔ فتح الباری:۱۲/ ۷۔۵، طبع حلبی

حافظ ابن حجر حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا

’ ان اصحاب هذه الصور یعذبون یوم القیامة و یقال لهم احیوا ما خلقتم و قال ان البیت الذی فیه الصورة لا تدخله الملائکة ‘

’’ یعنی اصحاب صور کے قیامت کے دن عذاب دیے جائیں گے اوران کو کہا جائے گا جو کچھ تم نے بنایا اس کو زندہ کرو اور فرمایا جس گھر میں تصویر ہو فرشتے داخل نہیں ہوتے، ‘‘

کی تشریح کے ضمن میں فرماتے ہیں، کہ اس سے معلوم ہوا کہ سب تصویریں حرام ہیں اور اس اعتبار سے قطعاً کوئی فرق نہیں کہ ان کا سایہ ہے یا نہیں۔ وہ پینٹ سے بنائی گئی ہیں یا تراشی گئی ہیں یا کرید کر بنائی گئی ہیں یا بن کر بنائی گئی ہیں۔ (فتح الباری:۱۱/ ۵۱۳)

آج کے دور میں کچھ علماء فوٹو گرامی کی تصویروں کو جائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کے پاس واضح کوئی دلیل نہیں۔

شیخ مصطفی جامعی نے ان کی تردید میں خوب لکھا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ فوٹو گرافی کی تصاویر جائز ہیں۔ دوسری طرف علامہ ناصر الدین البانی فرماتے ہیں وہ تصویر جائز ہے جس میں کوئی خاص فائدہ ہو یا جسے کسی ناگزیر ضرورت کے لیے بنایا جائے چنانچہ فرماتے ہیں ، میں قارئین کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ ہم بڑے وثوق کے ساتھ ہر قسم کی تصویر کی حرمت کے قائل ہیں لیکن ہم اس تصویر کی ممانعت کے قائل نہیں جس میں فائدہ متحققہ ہو اور اس کے ساتھ نقصان کا کوئی پہلو ثابت نہ ہو اور یہ فائدہ تصویر کے بغیر ممکن نہ ہو، مثلاً وہ تصویریں جن کی طب اور ڈاکٹری کے سلسلہ میں یا جغرافیہ میں یا مجرموں کی شناخت کے لیے ضرورت ہوتی ہے۔ تاکہ انھیں پکڑا جا سکے یا لوگوں کو ان سے مطلع کیا جا سکے تو اس قسم کی تصویریں جائز ہوں گی، بلکہ شاید بعض مخصوص اوقات میں واجب بھی ہوں، اس کی دلیل دو درج ذیلی حدیثیں ہیں۔

۱۔         حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھیں اور آنحضرتﷺ میری سہیلیوں کو میرے پاس لے آیا کرتے تھے تاکہ وہ میرے ساتھ کھیلیں۔

اس حدیث کو بخاری(۴۲۳/۱۰) مسلم(۱۲۵/۷) احمد(۶۶/۶، ۲۳۳تا۲۳۴)

الفاظ بھی امام احمد ہی کی روایت کے ہیں اور ابن سعد (۶۶/۸) نے روایت کیا ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ کے پاس گڑیاں تھیں اور جب آنحضرتﷺ گھر تشریف لاتے تو ان سے کپڑے کے ساتھ پردہ کرلیتے۔ محدث ابو عوانہ اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ یہ اس لیے کرتے تاکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  اپنے کھیل کو ختم نہ کریں۔

اس حدیث کو ابن سعد نے روایت کیا ہے اوراس کی سند بھی صحیح ہے۔ اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ بچیوں کے لیے گڑیاں بنانا جائز ہے۔

آنحضرتﷺ نے تصویروں کی بابت جو ممانعت فرمائی ہے یہ صورت اس سے مستثنیٰ ہے۔ قاضی عیاض نے بھی بڑے وثوق کے ساتھ یہ بیان فرمایا ہے اور اسے جمہور کا مذہب بتایا ہے۔ بچیوں کے لیے گڑیوں کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے تاکہ انھیں بچپن ہی سے امورِ خانہ داری کی تربیت دی جا سکے۔

۲۔        حضرت ربیع بنت معوذ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے عاشوراء کی صبح بستیوں( جو مدینہ منورہ کے گردو پیش تھیں) کی طرف پیغام بھجوایا کہ جس نے روزہ نہ رکھا ہو وہ دن کا باقی حصہ بھی اسی حالت میں گزارے، اور جس نے روزہ رکھا ہو وہ روزے کو برقرار رکھے۔ حضرت ربیع بیان فرماتی ہیں، کہ اس کے بعد ہم ہمیشہ روزے رکھتے تھے اور چھوٹے بچوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے اور انھیں اپنے ساتھ مسجد میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ ہم بچوں کو روئی کی گڑیاں بنا کر دیا کرتے وہ انھیں اپنے ساتھ مسجد میں بھی لے جایا کرتے تھے۔ جب کوئی بچہ کھانے کی وجہ سے روتا تو دل(بہلانے کے لیے) اسے گڑیا دے دیتے۔ حتی کہ افطار کا وقت ہو جاتا۔ ایک روایت میں ہے کہ چھوٹے بچے جب ہم سے کھانا مانگتے تو ہم انھیں گڑیاں دے دیتے تاکہ وہ ان سے کھیلتے رہیں ا ور اپنے روزے کو پورا کرلیں۔اسے بخاری(۱۶۳/۴) نے روایت کیا ہے الفاظ بخاری ہی کے ہیں۔

مسلم(۱۰۲/۳) نے بھی اسے روایت کیا ہے اور مسلم کی ایک دوسری روایت میں کچھ زائد الفاظ بھی آئے ہیں۔ یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ تصویر اس وقت جائز ہے جب اس سے مصلحت یا تربیت کا کوئی پہلو وابستہ ہو جو تہذیب نفوس، ثقافت یا تعلیم کے لیے مفید ہو ، لہٰذا ایسی تمام تصویریں جن میںں اسلام یا مسلمان کا کوئی فائدہ ہو جائز ہوں گی۔ البتہ مشائخ، بزرگوں اور دوستوں کی تصویریں جن میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ کافروں اور بتوں کے پجاریوں سے مشابہت کا باعث بنتی ہیں، حرام ہیں۔ واللہ اعلم (دعوت الی اللہ،ص:۷۰)

بعض دیگر روایات میں بھی جواز کے اشارے موجود ہیں لیکن وہ سب مخصوص حالات میں ہے، عام نہیں۔

سعود عرب کے علماء محققین نے علی الاطلاق فوٹو کے جواز کا فتویٰ قطعاً صادر نہیں کیا بلکہ علامہ البانی کی طرح وہ بھی مخصوص حالات میں جواز کے قائل ہیں۔ چنانچہ ہیئت کبار علماء کی دائمی کمیٹی برائے بحث اور فتویٰ نے فتویٰ صادر کیا ہے کہ زندہ چیزوں کی فوٹو لینی حرام ہے مگر جہاں کوئی انتہائی ضرورت ہو، جس طرح کہ تابعیہ(رہائشی اجازت نامہ) پاسپورٹ اور فاسق و فاجر اور لٹیروں کی تصویریں ہیں تاکہ ان پر کڑی نگاہ رکھ کر جرائم پر قابو پایا جائے اس کے علاوہ اسی طرح کی اور تصویریں لینے کا جواز ہے ،جس کے بغیر چارہ کار نہیں۔ (مجلۃ البحوث الاسلامیہ،ریاض،عدد:۱۹،ص:۱۳۸)

سعودی کرنسی نوٹوں پر بھی تصویر طبع کرنے کی اجازت اہل علم نے ناگزیر ضرورت کے پیش نظر دی ہے۔ عام حالات میں وہ بھی ممانعت کے قائل ہیں۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ  ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں تصویر کا بنانا تو کسی صورت درست نہیں اور بنی ہوئی کا استعمال دو شرطوں سے درست ہے۔ ایک یہ کہ مستقل نہ ہو، کپڑے وغیرہ میں نقش ہو۔ دوم نیچے رہے۔ بلند نہ لٹکائی جائے۔ پھر چند ایک احادیث سے اس نظریہ کا اثبات کیا ہے۔ ملاحظہ ہو، فتاویٰ اہل حدیث جلد سوم،ص:۳۴۵، ۳۴۶۔

واضح ہو کہ مسئلہ ہذا میں تہدید و عید کی چونکہ کئی ایک روایات وارد ہیں، جن کی صحت و حجیت میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا مجھے تو اپنے ناقص علم کی حد تک واللہ اعلم احتیاط اس میں نظر آتی ہے کہ بعض احادیث سے اجازت کا پہلو جس انداز میں نکلتا ہے۔ معاملہ صرف انہی صورتوں پر محصور رکھا جائے۔ اور اس میں توسع سے احتراز کرتے ہوئے ظاہری نصوص سے تجاوز نہ کیا جائے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب و علمہ اتم

دورانِ تعلیم حضرت الشیخ محدث روپڑی نے بھی فرمایا تھا کہ گڑیا بنانے اور اس سے کھیلنے کی رخصت صرف بچیوں کے لیے ہے یہ اجازت عام نہیں۔

جناب والا فوٹو کی اجازت کی احادیث کو تلاش کرنے کی بجائے آپ کو ممانعت کی حدیثوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے جن کے کتب احادیث میں انبار لگے ہوئے۔

جب یہ بات مسلمہ ہے کہ احکامِ الٰہی ابدی ہیں تو پھر خود کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرنی چاہیے، فتنہ و فسادات کے زمانہ میں دین میں ترمیم کی سوچ خطرناک نظریہ ہے جس سے بچاؤ ہر صورت ضروری ہے۔

اللہ رب العزت جملہ مسلمانوں کو دین حنیف پر استقامت کی توفیق بخشے۔ آمین

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:494

محدث فتویٰ

تبصرے