سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(689) مسئلہ تصویر کشی کا حکم

  • 25804
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-29
  • مشاہدات : 687

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اگفا ( Agfa )کمپنی کے ڈیلر الفا کلر میں سیلز ریپ کا کام کرتا تھا۔ میرا فیلڈ ایریا بھائی پھیرو پتوکی ہے جو کہ ضلع قصور کی تحصیلیں ہیں۔ میرا کام ہے فوٹو گرافروں کے پاس جانا اور جو ان کے پاس گاہک شادی وغمی اور دفتری کاموں میں ریکارڈ میں رکھنے کے لیے تصویریں بنواتے ہیں اور اسی طرح جو لوگ سیر و تفریح پر جاتے ہیں اور تصویریں بنواتے ہیں، یا خود کھینچتے ہیں یاشناختی کارڈ پاسپورٹ اور گھروں میں رکھنے کے لیے بڑی بڑی تصویریں بنواتے ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیں کہ:

۱۔         میری کمائی شرعی طور پر حلال ہے یا حرام ؟

۲۔        مجھے یہ کام کرتے رہنا چاہیے یا چھوڑ دینا چاہیے؟

۳۔        اگر چھوڑ دیا ہوا ہے تو دوبارہ کرلینا چاہیے یا نہیں؟

میں نے یہ کام اس لیے چھوڑ دیا تھا کہ ’’کتاب التوحید‘‘ کے باب نمبر ۶۱ اور صفحہ نمبر ۳۹۹، ۴۰۰، ۴۰۱، میں مسلمانوں کے لیے تصویر جہاں بھی نظر آئے۔ مٹا دینے کا حکم ہے نہ کہ بنوا کر دینے کا۔(راحیل اکرام پاشا، گلی نمبر ۳،مکان نمبر سی ۵۴، عزیز پارک اچھرہ لاہور، پوسٹ کوڈ:۵۴۶۰۰) (۸۔ اپریل۱۹۹۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مذکورہ کاروبار سے اجتناب ضروری ہے۔ احادیث میں تصویر کشی کے مشعلہ کو بدترین جرم قرار دیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس فعل سے حاصل شدہ کمائی بھی حرام ہو گی۔۔

فعل ہذا کے اگر آپ مرتکب ہیں تو فوراً ترک کردینا چاہیے اور اگر اس کو بالفعل چھوڑ رکھا ہے تو یہ قابلِ تعریف فعل ہے۔ا س میں عقبی کی بہتری ہے۔ ( ان شاء اللہ)

کتاب التوحید اور اس کی شروحات اس قسم کے مسائل کے لیے عظیم مرجع تصویر ہوتی ہے۔ اصلاحِ احوال کی خاطر اس قسم کی کتابوں کو زیر مطالعہ رکھنا چاہیے ۔ قرآن میں اللہ کا وعدہ ہے جو راہِ حق کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ اللہ رب العزت اس کی رہنمائی فرماتا ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:493

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ