السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱)کیا گانے وغیرہ سننا، موسیقی سننا وغیرہ گناہ ہے۔ کیا یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ یا گناہِ صغیرہ۔ اس کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیں۔
(۲) اگر آدمی تھوڑے بہت گانے بھی سنے اور ساتھ ساتھ اپنے اچھے اعمال یعنی ارکانِ دین بھی پورے کرتا رہے تو اس میں کوئی حرج ہے یا نہیں۔(سائل محمد سعید:۱۶ پیپلز کالونی اوکاڑا)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کتاب و سنت اور ائمہ سنت کی تصریحات کے مطابق گانا بجانا سننا سنانا مطلقاً حرام اور کبائر سے ہے۔چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَرى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان
’’اور لوگوں میں سے بعض ایسا ہے جو بیہودہ حکایتیں خریدتا ہے تاکہ( لوگوں کو) بے سمجھے اللہ کے رستے سے گمراہ کرے اور اس سے استہزاء کرے یہی لوگ ہیں جن کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔‘‘
ائمہ مفسرین نے اس آیت کریمہ کا شانِ نزول یہ بیان کیا ہے کہ رؤساء قریش میں سے ایک شخص نضر بن الحارث بغرضِ تجارت حیرہ جاتا تھا۔ وہاں سے شاہانِ فارس اور رستم اور اسفند یار وغیرہ کی حکایات و واقعات پر مشتمل کتابیں خرید لاتا۔ مکہ میں لوگوں کو ان کے پڑھنے کی ترغیب دیتا۔ کہتا لوگو! محمدﷺ تم کو قومِ عاد اور ثمود کے قصے سناتا ہے اور میں تم کو ان شاہوں کی کہانیاں بیان کرتا ہوں۔ مورّخ خطیب وغیرہ کا کہنا ہے اس نے گانے والی عورتیں بھی رکھی تھیں۔ اگر کوئی مسلمان ہونا چاہتا تو اُس کو ورغلا کر اپنی مجلس میں شراب پلا کر گانوں میں مست کرتا۔ ساتھ یہ کہتا کہ یہ بدرجہا محمدﷺ کے پیغام سے اور اس سے بہتر ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، اور لڑائی کرو۔ پھر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائیں۔ اسی بناء پر اکثر مفسرین کے نزدیک بقول واحدی وغیرہ لہو الحدیث سے مراد غناء ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے ابواسحاق سے نقل کیا ہے کہ اکثر و بیشتر ﴿لَھْوَ الْحَدِیْثِ﴾کی تفسیر میں یہاں کی تفسیر میں یہاں غنا مراد لیا گیا ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ کی یاد سے روکتا ہے۔(اغاثۃ اللہفان،ج:۱،ص:۲۵۷)
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہر وہ شئے جو اللہ کی عبادت اور اس کی یاد سے دُور کردینے والی ہے ﴿لَھْوَ الْحَدِیْثِ﴾ ہے۔(روح المعانی)
نیز اہل معانی نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ﴿لَھْوَ﴾کا مفہوم عام ہے جو گانے بجانے۔ موسیقی ، ڈھول ڈھمکا اور ہر قسم کی شیطانی کھیل اور آواز کو شامل ہے۔‘‘
مسنداحمد کی روایت میں﴿لَھْوَ الْحَدِیْثِ﴾کی تفسیر غناء کے ساتھ مرفوعاً بھی وارد ہے۔ نیز ایک حدیث میں نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے۔
’مَنِ اسْتَمَعَ اِلٰی قَیْنَةٍ صُبَّ فِیْ اُذُنَیْهِ الْاٰنُكُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ‘ (مسند احمد:۳۳۸۳،صحیح البخاری،رقم:۷۰۴۲،سنن أبی داؤد،رقم:۵۰۲۴)
یعنی جس نے گانے والی عورت کی آواز کو سنا روزِ قیامت اس کے کان میں قلعی ڈالی جائے گی۔‘‘
دوسری روایت جو شواہد اور متابعات کے اعتبارات سے قابلِ حجت قرار پاتی ہے۔ اس میں ہے کہ گانے والیوں کی خرید و فروخت مت کرو۔ اور نہ انھیں تعلیم دو۔ اور ان کی تجارت میں کوئی بھلائی نہیں اور ان کی قیمت بھی حرام ہے۔ مزید آنکہ صحابہ جلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے:
’اَلْغِنَائُ یَنْبِتُ الْنِّفَاقَ فِی الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الْبَقْلَ۔‘ (السنن الکبری للبیهقی،رقم:۲۱۰۰۸، سنن ابی داؤد،بَابُ کَرَاهِیَةِ الْغِنَاء ِ وَالزَّمْرِ،رقم:۴۹۲۷)
’’یعنی گانا بجانا دل میں نفاق اس طرح پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سے گھاس ، سبزہ اُگتا ہے۔‘‘
اسی طرح ائمہ اسلام سے امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے جس نے کسی لونڈی کو خریدا، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ گانے والی ہے۔ اس عیب کی بنا پر اس کو واپس کیا جا سکتا ہے۔ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے گانے کو مکروہ سمجھا ہے اور اسے گناہوں میں شمار کرتے ہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ اس سلسلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک شدید ترین ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کے اصحاب نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ لہو و لعب اور ملا ہی کے جتنے آلے ہیں سب کا سماع حرام ہے جس طرح کہ موسیقی، ڈھول ڈھمکا اور دفّ وغیرہ۔ اور انھوں نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ معصیت کا کام ہے اس سے فسق و فجور لازم آتا ہے اور اس کی وجہ سے شہادت بھی قابلِ ردّ ہے اور اس سے بھی زیادہ انھوں نے مبالغہ یوں کیا ہے کہ ایسی چیزوں کا سماع فسق و فجور اور ان سے لذت حاصل کرنا کفر ہے۔(اغاثتہ اللہفان،ج:۱،ص:۲۴۵)
جب گانا مطلقاً حرام ہے تھوڑا بہت سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : اغاثۃ اللہفان(ج:۱،ص:۲۴۲ تا ۲۸۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب