سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(657) کیا لگاتار سر کے بال منڈوانا جائز نہیں؟

  • 25772
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1856

سوال

(657) کیا لگاتار سر کے بال منڈوانا جائز نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ لگاتار تین مرتبہ سر منڈوانے والا شخص واجب القتل ہوجاتا ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح بیان کریں کہ کیا یہ بات درست ہے ؟ سرمنڈوانا ناپسندیدہ عمل ہے یا پسندیدہ ؟ لگاتار سر منڈوانا کیسا ہے ؟ قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کے علاوہ چاروں فقہی مسالک کا نقطہ نظر بھی ضرور بیان فرما دیجیے ۔ اگر کوئی مسلک اُسے ناپسندیدہ قرار دیتا ہے اور حدیث میں اس کی کراہت ثابت نہیں تو اس مسلک کی دلیل بیان کریں کہ وہ کیوں اُسے قابلِ کراہت کہتا ہے۔(محمد رفیع اسد۔ پتوکی) (۹ جنوری ۲۰۰۴ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سرمنڈوانا کسی کراہت(ناپسندیدگی) کے بغیر جائز ہے اس میں کوئی کلام نہیں۔ جو شخص کہتا ہے کہ تین دفعہ سر منڈوانا والا واجب القتل ہے وہ شریعت سے ناواقف اور جاہل ہے۔ متعدد احادیث سے سرمنڈوانے کا جواز ثابت ہے۔ مثلاً

جب حضرت جعفر رضی اللہ عنہ  کی شہادت کی خبر آئی تو تین راتوں کے بعد آپﷺ نے ان کے بچوں کے سرمنڈوائے۔ فرمایا: ’اُدْعُوْا لِیَ الْحَلَّاقَ فَامَرَهُ فَحَلَّقَ رَؤُسَنَا‘(سنن ابی داؤد، بَابٌ فِی حَلْقِ الرَّأْسِ،رقم:۴۱۹۲)

نبیﷺ نے جب غسل جنابت میں کوتاہی پر تنبیہ سنائی اور وعید دلائی تو علی رضی اللہ عنہ  نے کہا کہ ’’ اس وقت سے میں اپنے سر کا دشمن بن گیا۔ تین بار ان کلمات کو دہرایا۔ راوی نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ  اپنے سر کے بال کاٹ ڈالتے تھے۔

صاحب ’’عون المعبود‘‘ فرماتے ہیں:

’ وَاسْتُدِلَّ بِحَدِیثِ عَلِیٍّ هَذَا جَوَازِ حَلْقِ الرَّأْسِ وَلَوْ دَوَامًا وَیَدُلُّ عَلَی جواز حلق الرأس حدیث بن عمر أن النبی رَأَی صَبِیًّا حَلَقَ بَعْضَ رَأْسِهِ وَتَرَكَ بَعْضَهُ فَنَهَی عَنْ ذَلِكَ وَقَالَ  اِحْلِقُوْا کُلَّهٗ اَوِ اتْرُکُوْا کُلَّهٗ ‘(صحیح مسلم،بَابُ کَرَاهَةِ الْقَزَعِ،رقم:۲۱۲۰)

’’حضرت علی کی اس حدیث سے سر کے بال منڈوانے کے جواز پر استدلال کیا گیا ہے ، اگرچہ کوئی ہمیشہ منڈوائے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما  سے مروی حدیث بھی سر کے بال منڈوانے کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ نبیﷺ نے ایک بچے کو دیکھا جس کے سر کا کچھ حصہ مونڈا ہوا تھا اور کچھ حصے کو چھوڑا ہوا تھا۔ تو آپﷺ نے اس سے منع فرما دیا، فرمایا پورا سر مونڈو یا پورا چھوڑ دو۔‘‘

یہ روایات سر کے بال منڈوانے کی دلیلیں ہیں۔ اس کے باوجود بہتر یہ ہے کہ آدمی سر پر بال رکھے۔ سلف صالحین کی اکثر عادت یہی تھی۔ جملہ فقہی مسالک کو بھی اس بات سے اتفاق ہے۔

     ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب اللباس:صفحہ:480

محدث فتویٰ

تبصرے