السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سر کو ڈھانپنا لباس میں شامل ہے اور کیوں کہ لباس سنت میں شمار نہیں ہوتا اس لیے ٹوپی یا عمامہ وغیرہ کا استعمال بھی ہمارے لیے سنت نہیں بنے گا۔(ایک سائل) (۱۴ جنوری ۱۹۹۴ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
راسخین فی العلم واقعی اس بات کے قائل ہیں کہ لباس عادات سنن میں سے ہے۔ چنانچہ شیخ خیر الدین وائلی مسئلہ پگڑی پر بحث کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
’ وهی لیست سنة تعبدیة امرنا رسول الله صلی الله علیه وسلم بها بل هی مجرد سنة من سنن العادات ‘(کتاب المسجد فی الاسلام،ص: ۲۱۴)
’’ یعنی پگڑی پہننا تعبدی عبادت نہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہو بلکہ یہ تو محض عادات سنن میں سے ایک سنت ہے۔‘‘
نیز علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’ والصواب ان افضل الطرق طریق رسول الله صلی الله علیه وسلم التی سنها و امر بها و رغب فیها و داوم علیها وهی ان هدیة فی اللباس ما تیسر من اللباس ‘(زاد المعاد:۳۶/۱)
’’درست بات یہ ہے کہ سب سے افضل ترین طریق رسول اللہﷺ کا طریق ہے جو آپ نے مقرر فرمایا، اُس کا حکم دیا، اس میں رغبت کی اس پر مداومت کی،وہ یہ ہے کہ لباس میں آپ کا طریقِ کار یہ تھا کہ جو شئے آسانی سے میسر آتی پہن لیتے۔‘‘
اس کے باوجود اگر کوئی شخص آپﷺ کی پیروی میں آپ کے لباس کی پسندیدہ صورتوں میں سے کسی صورت کو اختیار کرتا ہے تو وہ اپنی نیت کے اعتبار سے ماجور ہے۔(ان شاء اللہ) مثلاً کسی نے رسول اللہﷺ کے انداز کی پگڑی پہنی ، بہ نیت اتباعِ رسول۔ یہ آدمی مستحق اجر و ثواب ہے لیکن دوسرا شخص اپنے ماحول کے اعتبار سے غیر انداز اختیار کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے ،بشرطیکہ اس سے غیر مسلموں کی مشابہت مقصود نہ ہو ، جب کہ منہی عنہ صورتوں کا مرتکب بنظر شرع مجرم ٹھہرتاہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب