شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ نماز جان بوجھ کر فوت کرنے کے بعد فوت کرنے والے سے قبول نہیں ہوتی اور نہ اس فعل حرام یعنی فوت کرنے کا گناہ اس سے ساقط ہوتا ہے اگرچہ قضا بھی کرے اس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے اس عبارت کا مطلب بیان فرما دیں۔
نماز فوتی کی قضا کرنے میں جو بلاعذر فوت ہو گئی ہو علماء کا اختلاف ہے ۔ جمہور کہتے ہیں قضاء واجب ہے اور داؤد ظاہری اور ابن حزم اور بعض شافعیہ کا مذہب قضا نہ کرنا ہے اور یہ لوگ کہتے ہیں جو بلاعذر جان بوجھ کر قضا کر دے وہ گناہ گار ہے اور نماز کے ترک کرنے میں اور حضرت ابن تیمیہ کا بھی یہی مذہب ہے اور ظاہریہ کا مذہب ظاہر ہے کیونکہ جمہور کے پاس کوئی دلیل صریح قضا کے واجب ہونے پر نہیں ہے۔ شوکانی نے شرح مختصر میں کہا میں جمہور کی کوئی دلیل قرآن اور حدیث سے نہیںپاتا مگر خثعمیہ کی حدیث جس کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
فَدَیْنُ اللّٰہِ اَحَقُّ اَنْ یُّقْضٰی
اور یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں عموم ہے جو مصدر مضاف سے نکلتا ہے اور وہ عموم اسباب کو بھی شامل ہے انتہیٰ۔ غرضیکہ جمہور کے پاس اس حدیث کے سوا کوئی اور دلیل نہیں اور اہل اصول میں خلاف ہے کہ وجوب قضاء کے لیے وہی دلیل کافی ہے۔ جس سے مقضی کا جواب نکلتا ہے۔ یا نئی دلیل کی ضرورت ہے جس سے قضاء کا وجوب ثابت ہو اور حق یہ ہے کہ نئی دلیل ہونی چاہیے کیونکہ قضاء کا وجوب مستقل تکلیف ہے علاوہ تکلیف ادا کے فتامل واللہ اعلم۔
(فتاویٰ نواب صدیق حسن خان جلد نمبر ۲ ص ۱۸)