سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(618) کفار کا اہل اسلام پر ظلم …آخر کیوں؟

  • 25733
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 803

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تاریخ مسلمہ کے موجودہ دور اور خصوصاً ۱۱/۹ کے تناظر میں مسلمانان عالم اور عالم اسلام کی جو صورت حال ہوگئی ہے وہ سب اہل علم ونظر حضرات کے سامنے بالکل واضح اور عیاں ہے۔ لہٰذا اس داستان کو دہرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن موجودہ صورت حال کو سامنے رکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب عالم کفر کا قطعی منصوبہ امت مسلمہ اور عالم اسلام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست اور نابود کرکے ہی دم لینے کا ہے۔ العیاذ باللہ تعالیٰ

اس صورتِ حال سے ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر امت کے اپنے اندرونی خلفشار، دینی واخلاقی، سیاسی ومعاشی زوال کی تیز رفتاری کا یہی عالم رہا تو پھر ہماری اس شکست خوردگی کی آخری منزل کیا ہوگی؟ کیا اب امت کے وجود کا باقی رہنا ممکن ہوسکے گا؟ اگر ہوسکے گا تو اس کی صورت کیا ہوگی؟ آپ حضرات کے نزدیک مذکورہ صورت حال کے پیدا ہونے کے حقیقی اسباب وعوامل کیا ہیں؟ کیا یہ سب اسباب ہمارے دشمنوں کے پیدا کردہ ہیں یا ان کے پیدا کرنے والے اور ذمہ دار ہم خود بھی ہیں؟ کیا اس صورتِ حال سے نکلنے کی کوئی تدبیر اب بھی باقی ہے؟ اگر باقی ہے تو وہ کیا ہے؟ اسباب زوال اور نجات کے لیے ممکنہ تدابیر فکر مند مسلمانوں کے سامنے لانے کی بے حد ضرورت ہے۔

علمائے کرام اور دانشور اہل قلم حضرات سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ اس صورتِ حال پر اپنا حقیقت پسندانہ، بے لاگ اور جامع تجزیہ اور اس کا قابل عمل حل تحریر فرما کر رہنمائی کریں۔ (سائل: پروفیسر عبدالخالق سہریانی بلوچ، کندھ کوٹ، سندھ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

  موجودہ صورتِ حال ہماری بد اعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ قرآنِ مجید نے اس کی نشان دہی فرمائی ہے:

﴿ظَهَرَ الفَسادُ فِى البَرِّ وَالبَحرِ بِما كَسَبَت أَيدِى النّاسِ لِيُذيقَهُم بَعضَ الَّذى عَمِلوا لَعَلَّهُم يَرجِعونَ ﴿٤١﴾... سورة الروم

’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ ان کو ان کے بعض عملوں کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں۔‘‘ 

اس پریشان کن صورتِ حال سے نکلنے کی تدبیر یہ ہے کہ ہم اللہ کے حضور توبہ انابت کریں اور اپنی زندگی کو کتاب وسنت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اس پرکاربند رہنے میں دنیا وآخرت کی ساری بھلائی ہے۔ اگر ہم نے اپنے کو سدھارنے کی سعی نہ کی تو نوشتہ دیوار تباہی کوئی نہیں روک سکتا۔ ارشادِ الٰہی ہے:

﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا مَن يَرتَدَّ مِنكُم عَن دينِهِ فَسَوفَ يَأتِى اللَّهُ بِقَومٍ يُحِبُّهُم وَيُحِبّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى المُؤمِنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الكـٰفِرينَ يُجـٰهِدونَ فى سَبيلِ اللَّهِ وَلا يَخافونَ لَومَةَ لائِمٍ ذ‌ٰلِكَ فَضلُ اللَّهِ يُؤتيهِ مَن يَشاءُ وَاللَّهُ و‌ٰسِعٌ عَليمٌ ﴿٥٤﴾... سورة المائدة

’’اے ایمان والو! اگر کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے گا تو اللہ ایسے لوگ پیدا کردے گا جن کو دوست رکھے اور جسے وہ دوست رکھیں۔ اور جو مومنوں کے حق میں نرمی کریں اور کافروں سے سختی سے پیش آئیں اللہ کی راہ میں جہاد کریں اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑی کشائش والا اور جاننے والا ہے۔‘‘

دوسرے مقام پر فرمایا:

﴿يُريدونَ أَن يُطفِـٔوا نورَ اللَّهِ بِأَفو‌ٰهِهِم وَيَأبَى اللَّهُ إِلّا أَن يُتِمَّ نورَهُ وَلَو كَرِهَ الكـٰفِرونَ ﴿٣٢ هُوَ الَّذى أَرسَلَ رَسولَهُ بِالهُدىٰ وَدينِ الحَقِّ لِيُظهِرَهُ عَلَى الدّينِ كُلِّهِ وَلَو كَرِهَ المُشرِكونَ ﴿٣٣﴾... سورة التوبة

’’یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار کر) بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کیے بغیر رہنے کا نہیں۔ اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس دین کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرک ناخوش ہی ہوں۔‘‘

قرآنی نصوص اس بات پر دال ہیں کہ غلبہ دین کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا اگر ہم نے اپنی اصلاح احوال کی طرف توجہ نہ دی تو ہماری جگہ دوسرے لوگ آجائیں گے جن کے ہاتھ پر یقینا غلبہ دین ہوگا۔ مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں مایوسی کفار کا شیوہ ہے۔ مومن اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجہاد:صفحہ:460

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ