السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ملک میں بہت سی دینی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں مثلاً جمعیت اہل حدیث، غرباء اہل حدیث، حزب اللہ، مرکز الدعوۃ والارشاد، جماعت المسلمین، مرکزی جمعیت اہل حدیث، اشاعۃ التوحید والسنۃ (عبد السلام رستمی) وغیرہ۔
1-ان کی جماعت سازی اور تنظیم سازی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
2- ان جماعتوں اور تنظیموں کے امیر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
3 -خلافت اسلامیہ کے احیاء کے لیے انفرادی دعوت وجہاد کرنا چاہیے یا کسی تنظیم کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے؟ (سائل : عبدالرحمن)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
1 : مختلف ناموں سے جماعت بندی اورتنظیم سازی میں شرعاً کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ مقصود صرف دعوت الی اللہ اور کسی نہ کسی انداز میں دین کی خدمت ہو، ناموں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’ اُکْتُبُوْا لِیْ مَنْ تَلَفَّظَ بِالْاِسْلَامِ مِنَ النَّاسِ، فَکَتَبْنَا لَهُ أَلْفًا وَّخَمْسَمِائَةِ رَجُلٍ‘(صحیح البخاري، کتاب الجهاد، باب کتابة الامام الناس: ۳۰۶۰)
’’مجھے مسلمانوں کے نام لکھ کر دو تو ہم نے پندرہ سو آدمیوں کے نام لکھ کر دیے۔‘‘
حدیث ہذا تنظیم سازی کے جواز کی دلیل ہے۔
2… ان جماعتوں اور تنظیموں کے امیر کی حیثیت سفری امیر جیسی ہے نہ کہ ’’امیر المومنین‘‘ جیسی، جہاں وہ اپنی حدود میں شریعت کا نفاذ کرتا ہے۔
3… اسلامی خلافت کے احیاء کے لیے انفرادی جدوجہد کی بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ اقرب الی الحق تنظیم کے ساتھ مل کر کوشش کی جائے۔
مثل مشہور ہے: ایک اور ایک دو گیارہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب