السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۳) حدیث : ’مَنْ فَارَقَ الجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ، إِلَّا مَاتَ مِیتَةً جَاهِلِیَّةً‘(صحیح البخاری،بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَتَرَوْنَ بَعْدِی أُمُورًا تُنْکِرُونَهَا،رقم:۷۰۵۴)کیا یہ حدیث موجودہ دور کی تنظیموں کے متعلق اللہ کے نبیﷺنے بیان فرمائی ہے؟ کیوں کہ آج کل ہر ’’امیر‘‘ اسے اپنی تنظیم اور ’’اطاعت‘‘ کے لیے بطورِ دلیل پیش کرتا ہے۔ اس حدیث کا صحیح مطلب کیا ہے؟(ابوعبداللہ شہداد کوٹ سندھ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث ہذا اپنی جگہ برحق ہے لیکن اس کا تعلق امامت ِ کبریٰ سے ہے۔ جاہلیت کی موت کی وعید اس صورت میں ہے جب با اختیار امام موجود ہو۔ اب چونکہ امام نہیں اس لیے وعید بھی نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب