سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(611) کیا ’’بیعت کیے بغیر مرنا‘‘ جاہلیت کی موت مرنا ہے؟

  • 25726
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2452

سوال

(611) کیا ’’بیعت کیے بغیر مرنا‘‘ جاہلیت کی موت مرنا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں نے پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ (کراچی) میں پڑھا تھا کہ جو شخص امام کی بیعت کیے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔ میں جب سے اہل حدیث ہوا ہوں کسی امام کی بیعت نہیں کی۔ آپ اس بارے میں میری رہنمائی فرما دیجیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث میں امام کی بیعت سے حاکم وقت کی بیعت مراد ہے۔ چناں چہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں حدیث ہے، نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’ مَنْ کَرِهَ مِنْ أَمِیْرِهٖ شَیْئًا فَلْیَصْبِرْ، فَإِنَّهٗ مَنْ خَرَجَ مِنَ السُّلْطَانِ شِبْرًا مَاتَ مِیْتَةً جَاهِلِیَّةً ‘(صحیح البخاري، بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: سَتَرَوْنَ بَعْدِی أُمُورًا تُنْکِرُونَهَا ،رقم: ۷۰۵۳)

’’جس نے اپنے امیر میں کوئی مکروہ (ناپسندیدہ) شے پائی پس چاہیے کہ وہ صبر کرے (اور اُس کا ساتھ نہ چھوڑیـ) کیوں کہ جو حاکم کی اطاعت سے ایک بالشت پیچھے ہٹتا ہے وہ جاہلیت کی موت مرتا ہے۔‘‘

اس کی تشریح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  رقمطراز ہیں:

’ وَالْمُرَادُ بِالْمِیْتَةِ الجَاهِلِیَّةِ : وَهِیَ بِکَسْرِ الْمِیْمِ حَالَةُ الْمَوْتِ کَمَوْتِ أَهْلِ الْجَاهِلِیَّةِ عَلٰی ضَلَالٍ ، وَ لَیْسَ لَهٗ إِمَامٌ مُطَاعٌ لِأَنَّهُمْ کَانُوْا لَا یَعْرِفُوهنَ ذَلِكَ، وَ لَیْسَ الْمُرَادُ أَنَّهُ یَمُوْتُ کَافِرًا بَلْ یَمُوْتُ عَاصِیًا . وَ یَحْتَمِلُ أَن یَکُوْنَ التَّشْبِیْهُ عَلٰی ظَاهِرِهٖ ، وَ مَعْنَاهُ أَنَّهُ یَمُوْتُ مِثْلَ مَوْتِ الْجَاهِلِیْ، وَ إِنْ لَّمْ یَکُنْ هُوَ جَاهِلِیًّا، أَوْ أنَّ ذَلِكَ وَ رَدَ مَوْرِد الزَّجْرِ وَالتَّنْفِیْرِ. وَ ظَاهِرُهٗ غَیْرُ مُرَادٍ وَیُؤَیِّدُ أَنَّ الْمُرَادَ بِالْجَاهِلِیَّةِ التَّشْبِیْهُ. قَوْلُهُ فِی الحَدِیْثِ الْآخَرِ ’ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَکَأَنَّمَا خَلَعَ رَبْقَةَ الْاِسلَامِ مِنْ عُنُقِهٖ ‘ أَخْرَجَهُ التِّرْمذی، و ابن خزیمة ، و ابن حبان ۔ (فتح الباری:۷/۱۳)

یعنی اس کی موت ایسی حالت میں آئی ہے جیسی اہلِ جاہلیت کی موت گمراہی پر آتی ہے جب کہ ان کا کوئی امام وپیشوا نہیں ہوتا کیوں کہ وہ لوگ اس نظم سے واقف نہیں تھے۔ یہ مراد نہیں کہ یہ آدمی کافر مرتا ہے بلکہ گناہ گار مرتا ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ تشبیہ اپنے ظاہر پر ہو معنی اس کا یہ ہے کہ وہ جاہلی کی طرح مرتا ہے اگرچہ خود جاہل نہیں یا اس سے مقصود محض زجر اور نفرت کا اظہار ہے ظاہر مراد نہیں۔ اس بات کی تائید کہ جاہلی موت سے مراد محض تشبیہ ہے ایک اَور حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ ’’جو جماعت سے ایک بالشت علیحدگی اختیار کرتا ہے گویا اس نے اپنی گردن سے اسلامی رسی اتار پھینکی۔‘‘

صاحبِ اقتدار کے علاوہ دوسرے کی بیعت کا کوئی جواز نہیں، فی الوقت اگر کسی حاکم کی بیعت شرعی ہوسکتی ہے تو سعودی عرب کے حاکم کی ہوسکتی ہے۔ باقی سب شوقیہ دل بہلاوا ہے جس کا شرع میں کوئی اصل نہیں۔

مسئلہ بیعت اور اہل ’’صحیفہ‘ ‘:

مسئلہ بیعت پر میں نے متعدد دفعہ ہفت روزہ الاعتصام میں لکھا جو اس سے قبل تفصیلاً شائع ہوچکا ہے۔ اب کی بار چوں کہ سائل کے سوال میں ’صحیفہ‘ کا نام آگیا اس لیے اہل صحیفہ نے اس پر لکھنا ضروری خیال کیا اور اس پر بطور دلیل بعض علماء کے عمل کو پیش کیا۔

گزارش یہ ہے کہ اس عمل کے وہی لوگ ذمہ دار ہیں جو اس پر عامل تھے۔ جہاں تک شاہ محمد شریف گھڑیالوی مرحوم کی بیعت کا تعلق ہے سو ان کو سلطان ابن سعود نے اپنا نائب مقرر کیا تھا اس لیے جواز کا پہلو ہے۔ مولانا عبدالجلیل خاں مرحوم کے مضمون میں جن نصوص کا ذکر ہے ان سب کا تعلق بااختیار حاکم سے ہے جس سے کوئی اختلاف ونزاع نہیں۔

اہل صحیفہ نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ جب کفار سے چھپ چھپ کر اشاعت اسلام فرماتے تھے تو کیا وہ اس وقت امیر یا امام تھے؟ کیا وہ اس وقت بیعت لے سکتے تھے یا نہیں؟ کیا ہم پاکستان چھوڑ کر سعودی عرب جا کر حاکم کی بیعت کریں؟ کیا آپ نے اس پر عمل کرلیا؟ یا آپ پاکستان میں ان احادیث پر عمل کو دل کا بہلاوا اور غیر شرعی عمل سمجھتے ہیں۔

جواباً عرض ہے کہ نبوت ورسالت اللہ تعالیٰ کا امر ہے جو ہر وقت اور ہر حالت میں نبی ﷺ کے ساتھ قائم ودائم رہتا ہے۔ نبی جب مناسب خیال کرے بیعت لے سکتا ہے اور اس کی بیعت کرنی چاہیے، لیکن ہر وقت بیعت ضروری بھی نہیں ہوتی، ثمامہ بن اثالؓ کا قصہ اس امر کی واضح دلیل ہے۔ کیوں کہ بیعت کا اصل مقصد اطاعت ہے اور ہر طرح کی ہمدردی اور معاونت ہے۔ لہٰذا سعودی حکمران کی اطاعت کا عہد ہم یہاں کرسکتے ہے۔ وہاں جا کر بیعت ہونا ضروری نہیں اور میرا الحمد للہ اس پر عمل ہے۔ مذکورہ مضمون میں مشار الیہ احادیث کا تعلق مصنوعی عہدوں سے نہیں، حقیقت کو تسلیم کرنا مومن کی شان ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجہاد:صفحہ:454

محدث فتویٰ

تبصرے