السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
۱۹؍ جولائی ۱۹۹۶ء شمارہ نمبر ۲۷ میں آپ کا ایک فتویٰ شائع ہوا تھا جس میں آپ نے بیعت کو بدعت قرار دیا ہے۔ اب نہ تو کسی نبی کو آنا ہے اور نہ اب کوئی خلیفہ ہے۔ آج کے دور ناگوار میں ایک اکیلا آدمی برائیوں کے طوفان کے سامنے کیسے سینہ تان کے کھڑا ہوسکتا ہے؟ اس کے لیے ایک بڑی جماعت کی ضرورت ہے جو برائیوں کی روک تھام کرسکے۔ کسی جماعت میں امیر جماعت کی بیعت کے بغیر ڈسپلن قائم ہونا ممکن نہیں۔ تنظیم اسلامی کا ڈسپلن بیعت امیر پر قائم ہے۔ اگر بیعت بدعت ہے پھر تو دنیا میں اسلام کبھی نہیں آسکتا۔ اس کے علاوہ شاہ اسماعیل شہید نے بھی سید احمد شہید کی بیعت کی تھی۔
اس لیے آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ جواب دیں کہ پھر بیعت کے بغیر (جو آپ کے فتویٰ کی روشنی میں بدعت ہے) ایک اکیلا آدمی کیا کرے؟ (سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جواباً عرض ہے کہ ایک سوال کے جواب میں میں نے مطلق بیعت کو بدعت قرار نہیں دیا تھا بلکہ پیری مریدی اور حزبی اسراری مروجہ بیعت کو بدعت قرار دیا تھا کہ شریعت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔
جہاں تک نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس یا آپ ﷺ کے بعد قائم مقام کی حیثیت سے خلیفہ کی بیعت کا تعلق ہے سو یہ برحق ہے۔ بطور مثال میں نے لکھا بھی تھا کہ آج کے دورِ انحطاط میں سعودی سربراہِ حکومت کی بیعت ممکن ہے کیوں کہ وہاں کسی نہ کسی انداز میں شریعتِ الٰہیہ کا نفاذ ہے۔ جزیرۂ عرب میں جب ملک عبدالعزیز حکومت پر متمکن ہوئے تو اس زمانہ میں ہندوستان کے کئی ایک اہل علم ان سے بیعت ہوئے تھے، اس بات کا تذکرہ بالصراحۃ(وضاحت کے ساتھ) سعودی تاریخ میں موجود ہے۔ باقی شاہ اسماعیل نے جو سید احمد شہید کی بیعت کی تھی تو یہ بحیثیت حاکم تھی۔ اس کے عملی ظہور پر تاریخ شاہد ہے اس کے انکار کی چنداں گنجائش نہیں۔ تاہم ہمارے ہاں بعض مدعیان عمل بالحدیث پیری مریدی جیسی بیعت کے تساہلات کا شکار ہیں لیکن اس کو جواز کی دلیل بنا کر پیش کرنا کسی طور صحیح نہیں۔ حضرت امام مالک رحمہ الله کا قول مشہور ہے: ’’جو شے عہدِ نبوت میں دین تھی وہ آج بھی دین ہے۔ اور جو اس وقت دین نہیں تھی، وہ آج بھی دین نہیں بن سکتی اور جو شخص دین میں بدعت ایجاد کرتا ہے دراصل اس کا زعم باطل یہ ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ نے پیغام رسانی میں خیانت کی ہے، جب کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم....﴿٣﴾... سورةالمائدة
نیز فرمایا:
﴿بَلِّغ ما أُنزِلَ إِلَيكَ مِن رَبِّكَ...﴿٦٧﴾... سورة المائدة
پھر گناہوں سے پاکیزگی حاصل کرنے اور عملی زندگی سنوارنے کے لیے بیعت کو شرط قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ نبی ﷺ کے مجموعی عہد پر اگر غور وخوض کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ نے بعض اہم مواقع پر بیعت لی ہے جب کہ عام حالات میں مجرد عہد وپیمان کو کافی سمجھا ہے۔ حتی کہ نئے مسلمان ہونے والے کے لیے بھی بسا اوقات بیعت کو ضروری نہیں سمجھا گیا، قصہ ثمامۃ بن اثال رضی اللہ عنہ اس امر کی واضح مثال ہے۔ لہٰذا بندے کو چاہیے کہ عملی زندگی کو سدھارنے کے لیے تعلق باللہ پر انحصار کرکے اس کو مضبوط تر بنانے کی ہر لمحہ سعی کرتا رہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب