سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(603) جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر والی حدیث کا مطلب

  • 25718
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2149

سوال

(603) جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر والی حدیث کا مطلب

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایک عرصہ تک ہم لوگ اسے ’رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الاَصْغَرِ اِلَی الْجِهَادِ الاَکْبَرِ‘ (ہم چھوٹے جہاد یعنی قتال سے بڑے جہاد یعنی جہاد بالنفس کی طرف لوٹ آئے ہیں) حدیث سمجھتے رہے۔ بطورِ حدیث سنا بھی اور پڑھا بھی۔ اب ایک کتاب عبداللہ بن عزام( شہید افغانستان) کی لکھی ہوئی’’دیکھنا! قافلہ چھوٹ نہ جائے‘‘ میں یہ بات نظر سے گزری کہ یہ حدیث نہیں ہے بلکہ ایک تابعی ابراہیم بن ابی عتلہ کا قول ہے اس کی حقیقت سے ہمیں آگاہ کریں کہ واقعی یہ حدیث ہے یا تابعی کا قول ہے۔ آپ کے شکر گزار ہوں گے۔ (حافظ محمد اقبال رحمانی عرفات ٹاؤن، کراچی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

’رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الاَصْغَرِ اِلَی الْجِهَادِ الاَکْبَرِ‘ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:’’لوگوں کی زبان پر مشہور ہے کہ یہ ابراہیم بن عیلہ کی کلام ہے۔‘‘

علامہ عجلونی ’’کشف الخفاء‘‘میں فرماتے ہیں: ’’ یہ حدیث ’’الاحیاء‘‘ میں ہے۔‘‘ حافظ عراقی نے کہا: ’’بیہقی نے بسندِ ضعیف اس کو جابر رضی اللہ عنہ  سے بیان کیا ہے۔‘‘(۴۲۴/۱۔۴۲۵)

یاد رہے لفظ ابو عتلہ نہیں بلکہ عیلہ ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجہاد:صفحہ:449

محدث فتویٰ

تبصرے