السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک جماعت کی شوریٰ کمیٹی کے ممبران کی کیا خصوصیات ہونی چاہیے؟ اور شوریٰ کے ممبران منتخب کرنے کے لیے شرعی طریقہ کیا ہے؟ آج کل کی جماعتوں کی حالت کا تو آپ کو بھی علم ہے۔ کیا ان جماعتوں کے ہوتے ہوئے اگر ہم دیکھیں کہ یہ جماعتیں کتاب و سنت کے مطابق کام نہیں کر رہی ہیں تو کیا دوسری جماعت بنا سکتے ہیں؟ ان مسائل کا کتاب وسنت کی روشنی میں جواب دیں۔ (ایک سائل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ارکانِ شورٰی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل علم اور امین ہوں۔ شیخین حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہ ان اوصاف کے حاملین سے مشورہ کرتے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’وَکَانَتِ الأَئِمَّةُ بَعْدَ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَسْتَشِیرُونَ الأُمَنَاء َ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ فِی الأُمُورِ المُبَاحَةِ لِیَأْخُذُوا بِأَسْهَلِهَا …… وَکَانَ القُرَّاء ُ أَصْحَابَ مَشْورَةِ عُمَرَكُهُولًا کَانُوا أَوْ شُبَّانًا، وَکَانَ وَقَّافًا عِنْدَ کِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ۔‘ (صحیح البخاري،بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَی : وَأَمْرُهُمْ شُورَی بَیْنَهُمْ،قبل رقم الحدیث:۷۳۶۹)
جن کے علم و تقویٰ پر خلیفہ وقت کو اعتماد ہو۔ بوقتِ ضرورت ان سے مشورہ لے سکتا ہے اور اپنی صوابدیدسے ان کو منتخب بھی کر سکتاہے۔ موجودہ حالات میں کوشش کرنی چاہیے کہ اقرب الی الصواب جماعت کا انتخاب کر لیا جائے یا پھر بلا قید افعالِ خیر میں سب کا تعاون جاری رکھا جائے اور ان کی شر سے بچنے کی کوشش کی جائے۔‘‘
نئی جماعت کھڑی کرنے سے ممکن ہے مزید فتنے جنم لیں۔ حتی المقدور اس سے احتراز کرنا چاہیے اور موجودہ کی اصلاح کے لیے کوشاں رہنا چاہیے۔ والتوفیق بید اللہ
اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو پھر سب سے علیحدگی کی صورت میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جیسا کردارادا کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ سب کے سب کلمہ واحدہ پر جمع ہو جائیں۔ تعجب خیزبات یہ ہے کہ مدعیانِ کتاب و سنت بذاتِ خود ان کی تعلیمات و دعوت سے عملی زندگی میں کوسوں دور نظر آتے ہیں۔ جن پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔ ابھی تک کوئی مصلح مؤثر نظر نہیں آرہا جو اقتدار کے لالچی اور پجاری طبقہ کو یکجا کر سکے۔
﴿ لَعَلَّ اللَّهَ يُحدِثُ بَعدَ ذٰلِكَ أَمرًا ﴿١﴾... سورة الطلاق
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب