السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل موجودہ زمانے میں جہاد سب پر فرض ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو کیا اس کے لیے کوئی شخص ساری زندگی اس میں وقف کر سکتاہے؟ یعنی باوجود وسائل کے وہ شادی نہ کرے یا جہاد کے لیے اپنے والدین سے اجازت نہ لے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآنی آیت ﴿وَ اَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ﴾(الانفال:۶۰) کے پیش نظر جملہ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ فوجی تربیت حاصل کریں اور ہمہ تن جہاد کے لیے تیار رہیں۔ بوقتِ ضرورت میدانِ معرکہ میں کود پڑیں۔ ساری زندگی جہاد کے لیے وقف کرنے کا اگر یہ مفہوم ہے کہ جملہ عزیز و اقارب کوخیر باد کہہ کر کلیۃً ان سے کٹ جائے یہ تو غیر درست ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ چند ماہ بعد مجاہدین کو رخصت پر بھیج دیا کرتے تھے تاکہ بیوی بچوں کے حقوق ادا کر آئیں۔ اور اگر اس سے مقصود ہمہ تن جہاد کے لیے استعداد پیدا کرنا ہے تو پھر واقعتا درست فعل ہے بلکہ اس عملی جذبہ کا پایا جانا ضروری ہے۔ ورنہ ڈر ہے کہیں علامت ِ نفاق پر موت واقع نہ ہو جائے۔
وسائل کے باوجود شادی نہ کرنا سنت نبویﷺ سے بے رغبتی کرنا ہے۔ جو درست فعل نہیں۔
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا بیان ہے مجھ سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: نکاح کر میں نے انکار کردیا تو فرمایا:
’فَتَزَوَّجْ فَإِنَّ خَیْرَ هَذِهِ الأُمَّةِ أَکْثَرُهَا نِسَاءً ‘ (صحیح البخاري،بَابُ کَثْرَةِ النِّسَاء ِ، رقم:۵۰۶۹)
’’نکاح کر کیونکہ اس امت کے افضل ترین آدمی یعنی نبیﷺ کی سب سے زیادہ بیویاں تھیں۔‘‘
عام حالات میں جہاد والدین کی اجازت سے ہونا چاہیے ۔ امام بخاری نے اپنی صحیح میں بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے۔’بَابُ الجِہَادِ بِإِذْنِ الأَبَوَیْنِ‘۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ’’فتح الباری ‘‘میں رقمطراز ہیں:
’قَالَ جَمْهُورُ الْعُلَمَاء ِ یَحْرُمُ الْجِهَادُ إِذَا مَنَعَ الْأَبَوَانِ أَوْ أَحَدُهُمَا بِشَرْطِ أَنْ یَکُونَا مُسلمین لِأَنَّ بِرَّهُمَا فَرْضُ عَیْنٍ عَلَیْهِ وَالْجِهَادُ فَرْضُ کِفَایَةٍ فَإِذَا تَعَیَّنَ الْجِهَادُ فَلَا إِذْنَ ۔‘ (۱۴۰/۹۔۱۴۱)
یعنی اکثر علماء اس بات کے قائل ہیں کہ جب والدین یا کوئی ایک ان میں سے جہاد کرنے سے منع کرے تو اس صورت میں جہاد کرنا حرام ہو جاتاہے۔ بشرطیکہ وہ دونوں مسلمان ہوں کیونکہ اولاد کے لیے ان دونوں سے نیکی کرنا فرض عین ہے۔ یعنی ہر صورت ضروری ہے کہ جب کہ جہاد فرض کفایہ ہے یعنی بعض کے جہاد سے باقی لوگوں سے جہاد ساقط ہو جاتا ہے۔ جب جہاد متعین ہو جائے تو والدین سے اجازت کی چنداں ضرورت نہیں رہتی۔ اور اس کی تین صورتیں ہیں:(۱) خلیفۂ وقت اعلانِ عام کردے۔(۲) دشمن مسلمانوں پر حملہ آور ہو۔ (۳) انسان میدانِ معرکہ میں صف آراء ہو۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب