سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(594) موجودہ جہادی مہم اور اصلاح کی ایک صورت

  • 25709
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 736

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگرچہ یہ چند الفاظ بعض جماعتوں کے لیے کھٹکیں گے لیکن شرعی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کشمیر میں جو مختلف تنظیمیں جہاد میں برسرِ پیکار ہیں۔ یہ لوگ اگر محدود ہندو فوجی قتل کرتے ہیں تو ان کے عوض انڈین فوجی پورے گاؤں کا محاصرہ کرتے ہیں۔ عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں۔ بچوں بوڑھوں کو اذیتیں دے کر ختم کرتے ہیں۔ یعنی ان حریت پسندوں کا یہ فعل تمام گاؤں کے لیے وبالِ جان بن جاتا ہے۔ کیا یہ درست ہےاور جہاد ہے؟ اگر ان جہادی تنظیموں کا نظریہ ایک ہے تو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر جہاد کیوں نہیں کرتے۔ عوم کے اس سوال کا جواب کیا ہوگا کہ یہ لوگ صرف چندہ ہتھیانے کے لیے تمام کارروائیاں کر رہے ہیں۔ وضاحت سے قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔(ایک سائل)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جملہ جہادی تنظیموں کو چاہیے کہ یکجا ہو کر ایک پلیٹ فارم پر ایک امیر کی قیادت میں جہاد کریں۔ اسی میں خیروبرکت ہے۔

’وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ‘(صحیح البخاري،بَابُ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاء ِ الإِمَامِ وَیُتَّقَي بِهِ،رقم:۲۹۵۷)

جہاں تک موجودہ تشتت و تفرق کی کیفیت کا تعلق ہے۔اس طرح کے جہاد کی عہد خیر القرون میں مثال ملنی صرف ناممکن ہی نہیں بلکہ امر محال ہے کہ بلا قیادتِ عامہ تحزّبیت(گروہوں) میں منقسم ہوکر وہ جہاد کے مقاصد کو پروان چڑھاتے ہوں کیونکہ وہ فرمانِ باری تعالیٰ ﴿وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْهَبَ رِیْحُکُمْ﴾ (الانفال:۴۶) ’’اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ(ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہوجاؤ گے اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا۔‘‘ (سورۃ الانفال آیت :۴۶) کو خوب یاد رکھتے تھے اور اس کے رموز و اسرار سے واقف تھے۔ آج افغانستان میں ہماری ذلت و رسوائی کا سبب انہی الفاظ کا عدمِ فہم بنا ہوا ہے۔

میرے خیال میں عمومی نقصان سے بچاؤ کا واحد حل یہ ہے کہ دشمن سے جہاد منظم صورت میں کرنے کی سعی کرنی چاہیے تاکہ اسے سنبھلنے کا موقع ہی میسر نہ آسکے ۔ فاتحین قیصر و کسریٰ کے وارثوں پر واجب ہے کہ موضوع ہذا پر مل بیٹھ کر غوروخوض کریں تاکہ کل کو مثبت نتائج کی توقع کی جا سکے۔ سدا جانی و مالی بھاری نقصان اٹھاتے رہنا عقل و دانش کے منافی ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الجہاد:صفحہ:444

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ