السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہفت روزہ’’اہل حدیث‘‘ میں حافظ عبدالستار الحماد صاحب نے ایک سوال کے جواب میں جو فرمایا ہے (تراشہ لف ہذا ہے) کہ مجاہدین کو فطرانی اور کھال نہیں لگتی۔ آیا یہ درست ہے ؟ وضاحت سے جواب لکھیں۔ ہمارے ہاں ایسے لگتا ہے کہ مجاہدین تنظیموں کا بھی یہی کام رہ گیا ہے۔ امید ہے اپنی پہلی فرصت میں جواب مرحمت فرمادیں گے۔ (محمد اسلام طاہر محمدی) (۱۳ / اگست ۲۰۰۴ئ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
متعدد احادیث میں قربانی کی کھالوں کو صدقہ کرنے کاحکم آیا ہے اور قرآن میں ہے:
﴿لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَا یَستْطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الاَرْضِ﴾
’’(ہاں تم جو خرچ کرو گے تو) ان حاجت مندوں کے لیے ہے جو اللہ کی راہ میں رُکے بیٹھے ہیں اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘
مجاہدین چونکہ اللہ کی راہ میں مصروفِ کار ہوتے ہیں اس لیے عموم کے اعتبار سے آیت ہذا ان کو بھی شامل ہے۔
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، فرمان الٰہی کامعنی یہ ہے
’ اِنَّهُمْ حصِرُوْا اَنْفُسَهُمْ وَ وقفوهَا عَلَی الْجِهَادِ وَ اِنَّ قَوْله ﴿فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ﴾ مُخْتَصٌ بِالجِهَادِ فِی عُرفِ الْقُرْاٰنِ وَ لان الجهاد کان وَاجِبًا فِیْ ذٰلِكَ الزَّمَان وَ کَانَ تَشتَد الحاجة الی من یحبس نفسه للمجاهدة مع الرسول ﷺ فَیَکُوْنُ مسْتَعِدًا کَذٰلِكَ مَتٰی مَست الحَاجَة ‘تفسیر کبیر:۷۰/۷
لہٰذا قربانی کی کھالوں کو جہاد فنڈ میں دینا جائز ہے۔ نیز صدقہ فطر بھی چونکہ من وجہ زکوٰۃ ہے اس لیے اس کو بھی مصرف جہاد میں دیا جا سکتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب