سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(586) نومولود کے کان میں اذان کہنے کا حکم؟

  • 25701
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 6284

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہنا چاہیے یا نہیں؟(عطاء اللہ خان۔ لاہور) (۶ ستمبر۲۰۰۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حدیث ضعیف ہے۔

نومولود کے کان میں اذان اور اقامت: (تعاقب از عبدالجبار۔ شہداد پور)

محترمی و مکرمی جناب حافظ عبدالوحید صاحب (مدیر ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ )۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

’’الاعتصام‘‘ میں شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی صاحب کا فتویٰ شائع ہوا ہے۔ سوال کیا گیا ہے کہ کیا نومولودبچے یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہیے یا نہیں ؟ تو جناب حافظ صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ’’ یہ حدیث ضعیف ہے۔‘‘

حضرت نے یہاں تک بات کی ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جب حدیث ہی ضعیف ہے تو پھر نومولود بچے کے کان میں اذان اور اقامت کس کام کی؟ ’’الاعتصام‘‘ چونکہ پورے پاکستان میں جگہ جگہ پڑھا جاتا ہے تو اس پر جماعتوں نے سوال کرنا شروع کردیے ہیں۔ حیدرآباد سے حافظ یونس جو حافظ محمد ادریس کے بڑے بھائی ہیں، نے مجھے کہا کہ آپ اس کی تحقیق کرکے ’’الاعتصام‘‘ کو ضرور لکھیں۔ شہداد پور سے ڈاکٹر عبدالغفور نے بھی یہی تقاضا کیا، لہٰذا میں اپنے علم کے مطابق یہ تحریر ارسال کر رہا ہوں۔ تحقیق کا میدان بہت وسیع ہے۔ نومولود بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہنے پر علماء اہل حدیث کا اتفاق ہے کہ یہ عمل صحیح ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ یہ تحریر’’الاعتصام‘‘ میں شائع کریں گے۔ شکریہ (عبدالجبار۔ شہدادپور) (۲۵ اکتوبر۲۰۰۲ء)

نومولود بچے یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی حدیث و سنت سے ثابت ہے اور عمل صحیح ہے۔ اس عمل کے صحیح ہونے کے لیے چند احادیث پیش کی جاتی ہیں۔

پہلی حدیث:

’عَنْ عُبَیْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِی رَافِعٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: رَأَیْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ حِینَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ‘سنن أبی داؤد،بَابٌ فِی الصَّبِیِّ یُولَدُ فَیُؤَذَّنُ فِی أُذُنِهِ،رقم:۵۱۰۵، (سنن الترمذی،بَابُ الأَذَانِ فِی أُذُنِ الْمَوْلُودِ، رقم:۱۵۱۴)

’’حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپ نے (حضرت) حسین کے کان میں اذان کہی جب فاطمہ الزہراء نے انھیں جنم دیا۔‘‘

اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ  نے اور امام ابوداؤد رحمہ اللہ  نے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ جب کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔(نیل الاوطار،ص:۲۲۹) اس حدیث کا راوی عاصم بن عبید اللہ اگرچہ ضعیف ہے لیکن دوسری دو سندوں کی وجہ سے یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔

دوسری حدیث:

’ مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُودٌ فَأَذَّنَ فِی أُذُنِهِ الْیُمْنَی وَأَقَامَ فِی الْیُسْرَی لَمْ تَضُرَّهُ أُمُّ الصِّبْیَانِ‘ (رواه ابن السنی فی عمل الیوم واللیلة،بَابُ مَا یَعْمَلُ بِالْوَلَدِ إِذَا وُلِدَ، رقم:۶۲۳، و أبو یعلی موصلی نیل الاوطار،ص:۲۳۰)

’’حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما  روایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا، جس کے پاس کوئی بچہ یا بچی پیدا ہو تو وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہتے تو اسے ام الصبیان تکلیف نہیں دے گی۔‘‘

’’ام الصبیان‘‘ ایک جننی کانام ہے جو ہر نومولود کو اذیت اور تکلیف دیتی ہے۔ یعنی نومولودبچے کے دائیں کان میں اذان  اور بائیں کان میںاقامت کہنے کی وجہ سے بچہ اس جننی کی شرارت سے محفوظ رہے گا۔

تیسری حدیث:

’ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: " أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ یَوْمَ وُلِدَ، فَأَذَّنَ فِی أُذُنِهِ الْیُمْنَی، وَأَقَامَ فِی أُذُنِهِ الْیُسْرَی ۔‘ (شعب الایمانلللبیهقی ،حق السادة علی الممالیك،رقم:۸۲۵۵)

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے حضرت حسین کی ولادت کے دن ان کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی۔‘‘

اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے سند کے لحاظ سے حضرت حسین کی روایت سے بہتر قرار دیا ہے اور حدیث ابی رافع کے لیے بہتر شاہد قرار دیا ہے۔ (دیکھیں: سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ،ج:۱،ص:۳۳۱)

خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں ’’مصنف عبدالرزاق ‘‘ میں ہے:

’ أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِیزِ : کَانَ إِذَا وُلِدَ لَهُ وَلَدٌ أَخَذَهُ کَمَا هُوَ فِی خِرْقَتِهِ، فَأَذَّنَ فِی أُذُنِهِ الْیُمْنَی، وَأَقَامَ فِی الْیُسْرَی، وَسَمَّاهُ مَکَانَهُ‘ (مصنف عبدالرزاق(ج:۲،ص: ۳۳۶) بَابُ مَوْتِهِ قَبْلَ سَابِعِهِ وَمَتَی یُسَمَّی وَمَا یُصْنَعُ بِهِ رقم:۷۹۸۵)

’’عمر بن عبدالعزیز کے یہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو اس کو اسی حالت میں لیتے تھے( یعنی وہ کپڑے میں لپیٹے ہوئے ہوتے ) اور اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے اور اس وقت اس کا نام بھی رکھتے تھے۔‘‘

امام بغوی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ:

’رُوِی أَن عُمر بْن عبْد الْعزِیز کَانَ یُؤذِّنُ فِی الیُمْنی ویُقِیمْ فِی الیُسْری إِذا وُلِد الصّبِیُّ.۔‘ (شرح السنة(ج:۱۱،ص:۲۷۳) بابُ الأذانِ فِی أُذنِ الْموْلُودِ، رقم:۲۸۲۲)

’’حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بارے میں یہ روایت ہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہتے تھے۔‘‘

نومولود بچے یا بچی کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنے والے عمل کو مسنون اور صحیح قرار دینے والے محدثین کرام، علمائِ دین اور محققین کرام کے نام لکھے جاتے ہیں۔

۱۔         امام ترمذی رحمہ اللہ  نے ایک کان میں اذان دینے والی حدیث کو ’’حسن‘‘ اور ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور کہا ہے کہ اس پر عمل ہے۔(جامع الترمذی، باب العقیقۃ)

۲۔        حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ  نے اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔(تحفۃ الاحوذی، ج:۲، ص:۳۶۳)

۳۔        علامہ محمد عطاء اللہ حنیف نے اس عمل کو مشروع قرار دیا ہے۔(تنقیح الرواۃ،ج:۲،ص:۲۳۰)

۴۔        علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس عمل کو مستحب قرار دیا ہے (نیل الاوطار،ج:۳،ص:۲۳۰)

۵۔        علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ  نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(حوالہ زاد المعاد)

۶۔        علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔ (فتاویٰ عظیم آبادی)

۷۔        علامہ شیخ الکل سید نذیر حسین نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(فتاویٰ نذیریہ)

۸۔        محترم شیخ شعیب الارنوؤط اور شیخ عبدالقادر ارنوؤط نے ’’ابو رافع‘‘ والی حدیث کو تقویت دینے کے لیے ابن عباس رضی اللہ عنہما  والی حدیث کو جو امام بیہقی رحمہ اللہ نے ’’شعب الایمان‘‘ میں درج کی اس کو شاہد کے طور پر پیش کرکے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔(حوالہ زاد المعاد مع تحقیق و تعلیق ،ج:۲،ص:۳۳۳)

۹۔        حضرت مولانا حمید اللہ میرٹھی نے اس عمل کو مسنون قرار دیا ہے۔ (خطباتِ توحید)۔

۱۰۔       علامہ شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ  نے اس عمل کو صحیح قرار دیا ہے۔ (حوالہ خطبات التوحید پر نظر ثانی و افادات)

۱۱۔        فضیلۃ الشیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ  نے ’’حدیث ابی رافع‘‘ کو تقویت دینے کے لیے ’’حدیث ابن عباس‘‘ جو امام بیہقی رحمہ اللہ  کی ’’شعب الایمان‘‘ میں ہے ، پیش کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ حدیث ابی رافع حسن درجہ کی ہے اور یہ عمل بھی صحیح ہے۔ (حوالہ سلسلہ،ص:۳۳۱،ج:۱)

۱۲۔       امام النووی رحمہ اللہ نے اس عمل کو مسنون قرار دیا ہے۔ (حوالہ شرح المھند،ج:۴،ص:۴۴۲)

۱۳۔       علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’تحفۃ الودود‘‘ میں مستقل باب باندھا ہے کہ :

’اَلْبَابُ الرَّابِعُ فِی اِسْتِحْبَابِ التَّأْذِیْنَ فِیْ اُذُنِهِ الْیُمْنٰی وَالْاِقَامَة فِی اُذُنِهِ الْیُسْرٰی ‘

’’یہ باب ہے نومولود بچے کے دائیں کان میںاذان کہنے اور بائیں کان میں اقامت کہنے کے بارے میں۔‘‘

تین احادیث اور خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ  کے عمل اور ان تمام علمائے دین، محدثین و محققین کی آراء اور اس عمل کو صحیح قرار دینے کے بعد میری بھی رائے یہی ہے کہ یہ عمل صحیح ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:437

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ