سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(290) جب فجر کی نماز ہو رہی تو فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے یا نہیں

  • 2570
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 5248

سوال

(290) جب فجر کی نماز ہو رہی تو فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے یا نہیں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب فجر کی جماعت ہو رہی ہو تو فجر کی سنت پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور جو شخص فجر جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے سنت نہ پڑھ سکے تو کیا بعد اداء فرض سنت پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟


 

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس سوال کی دو شقیں ہیں ۔ شق اول یہ ہے کہ جب فجر کی جماعت ہو رہی ہو، سنت فجر پڑھنی جائز ہے یا نہیں… ؟ سو اس کے متعلق عرض ہے کہ جماعت کے ہوتے ہوئے سنت پڑھنا منع ہے ارشاد خداوندی ہے۔
﴿وَارْ‌كَعُوا مَعَ الرَّ‌اكِعِينَ (٤٣)﴾ (البقرة)
’’یعنی رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔‘‘
اس آیت قرآنی سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ جماعت کے ہوتے ہوئے سنت پڑھنا منع ہے چنانچہ حدیث میں ہے۔
عن أبی ھریرة قال قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: « إذا أقیمت الصلٰوة فلا صلوة إلا المکتوبة» (مسلم، ترمذی، ابو داؤد، احمد)
’’یعنی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب جماعت کھڑی ہو جائے (یعنی اقامت ہو جائے) پھر کوئی نماز نہیں سوائے نماز فرض کے یعنی وہی نماز جس کی تکبیر کہی جائے۔‘‘
حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے۔
فلا صلوة اِلَّا الَّتِیْ اقیمت
’’اس وقت اور کوئی نماز نہیں ہے سوائے اس نماز کے جس کی تکبیر کہی جائے۔‘‘
ابن احبان میں ایک حدیث ان الفاظ سے مروی ہے۔
إذا أخذ المؤذن بالإقامت إلا المکتوبة
’’جس وقت مؤذن تکبیر شروع کرے اس وقت سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں۔‘‘

حدیث  إذا أقیمت الصلوة کی تشریح:

اذا  عموم زمان کے لیے ہے اور  فلا صلوٰۃ میں  صلوٰۃ نکرہ ہے جو کہ عموم کا فائدہ دیتا ہے۔ حدیث شریف کا صاف مطلب یہ ہوا کہ جس وقت کسی نماز کے لیے اقامت کہی جائے تو بحز نماز مکتوبہ مقام لہا کے اور کوئی نماز نہیں پڑھنی چاہیے نہ فرض اور نہ غیر فرض بلکہ جماعت میں شریک ہو جانا چاہیے۔ یہ تمام حدیثیں عام ہیں جیسے اور نمازوں کو شامل ہیں، ویسے ہی نماز فجر کو شامل ہے۔ بلکہ ایک روایت ابن عدی میں تو خاص طور سے نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ وہ روایت ان الفاظ سے مروی ہے۔
إذا أقیمت الصلوٰة فلا صلوة إلا المکتوبة قیل یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم ولا رکعتی الفجر قال ولا رکحتی الفجر أخرجه ابن عدی وسندہ حسنً
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو پھر کوئی نماز نہیں مگر وہی فرض نماز (جس کے لیے تکبیر کہی گئی) صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نہ پڑھیں دو رکعت سنت فجر کی بھی، آپ نے فرمایا نہ پڑھو دو رکعت سنت فجر کی بھی ۔‘‘
ابو داؤد طیالسی میں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
قال کنت أصلی وأخذ الموذن فی الإقامة فجذ بنی النبی صلی اللہ علیه وسلم قال اتصلی اربعاً
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ مؤذن نے تکبیر کہنی شروع کر دی۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچ کر فرمایا کیا تو فجر کی چار رکعتیں پڑھتا ہے؟ ‘‘
آپ نے دیکھا کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے فجر کی جماعت کھڑی ہونے کے وقت سنتیں توڑ دیں۔
طبرانی میں ہے، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
أن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رأی رجلا یصلی رکعتی الغداة والمؤذن یقیم فأخذ منکبیه وقال إلا کان ھذا قبل ھٰذا
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ دو رکعتیں سنت فجر کی پڑھتا ہے او رمؤذن تکبیر کہہ رہا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے دونوں کندھے پکڑے اور فرمایا:
إلا کان ھٰذ ا قبل ھٰذاً
’’خبردار اس نماز کا وقت اس سے پہلے تھا۔‘‘
یعنی سنت فجر پڑھنے کا وقت جماعت کے کھڑے ہونے سے پہلے ہوتا ہے جب جماعت کھڑی ہو جائے اس وقت نماز فرض کے سوائے کوئی نماز نہ پڑھے بلکہ جماعت میں شامل ہو جانا چاہیے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے زمانہ میں نماز فجر کی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے والوں کو بطور تعزیر مارا کرتے تھے۔ بیہقی میں ہے۔
إنه کان إذا رأی رجلاً یُصلّی وھو یسمع الاقامة ضرب
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی آدمی کو دیکھتے کہ نماز پڑھتا ہے حالانکہ تکبیر سن چکا ہے تو آپ اس کو مارتے۔‘‘
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی کے نزدیک فجر کی جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد سنت فجر پڑھنی منع ہے۔ ملاحظہ ہو جامع ترمذی… اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی مذہب ہے جیسا کہ محلی شرح مؤطا سے واضح ہوتا ہے … اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا صحیح مسلک اس مسئلہ میں معلوم نہ ہو سکا، البتہ فقہ کی مشہور ترین کتاب ہدایہ اور فتح القدیر میں ہے کہ تکبیر کے وقت مسجد میں سنت پڑھنی مکروہ ہے اور مسجد سے باہر پڑھنی جائز ہے بشرطیکہ دونوں رکعت فرض کے فوت نہ ہو جائیں ۔ آپ نے دیکھا کتب فقہ میں سنت فجر جس طرح ہمارے حنفی بھائی پڑھتے ہیں یعنی قرب صف کے… اور مسجد میں ممنوع لکھا ہے… ان حضرات کے دلائل جو جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے کے قائل ہیں۔
إذا أقیمت الصلٰوة فلا صلوة إلا المکتوبة إلا رکعتی الفجر (بیہقی)
’’فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نماز جماعت کھڑی ہو جائے تو سوائے نماز فرض کے اور کوئی نماز نہیں مگر دو رکعت سنت فجر…‘‘
امام بیہقی نے اس کے بارے میں فرمایا ہے۔
ھٰذہ الزیادة لا اصل لھا وفی إسنادہٖ الحجاج بن نصیر و عباد بن کثیر وھما ضعیفان  (فوائد مجموعہ ص۲۴)
’’یعنی اس زیادتی کا کوئی ثبوت نہیں اور حدیث کی سند میں حجاج بن نصیر اور عباد بن کثیر ہیں اور دونوں ضعیف ہیں۔‘‘
اور اس حدیث کے متعلق حضرت مولانا سلام اللہ صاحب حنفی رحمۃ اللہ علیہ محلی شرح مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ میں لکھتے ہیں ایک حدیث میں کسی شخص نے یہ لفظ زیادہ کر دیئے ہیں:  اِلَّا رکعتی الصّبح  یعنی تکبیر ہو جانے کے بعد دو رکعت سنت صبح کی پڑھ لے۔
اور حضرت مولانا انور شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ حنفی دیوبندی نے بھی  اِلَّا رکعتی الفجر کی زیادتی کو حدیث  اذا قیمت الصلوٰۃ فلا صلوٰۃ الا المکتوبتہ میں درج تسلیم کیا ہے ملاحظہ ہو، العرف الشندی ۱۹۳۔
اور حضرت مولانا عبد الحی صاحب حنفی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں اپنی رائے یوں ظاہر فرماتے ہیں۔
لکن لا یخفی علی الطاھر ان ظاھر الاخبار المرفوعة ھو المنع
 (تعلیق المسجد ص۸۸)
’’یعنی جو شخص حدیث میں مہارت رکھتا ہے، اس پر پوشیدہ نہیں ہے کہ احادیث مرفوعہ ظاہر طور سے وقت تکبیر ہونے کے سنت فجر پڑھنے کو منع کر رہی ہے۔‘‘
بعض آثار صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے کے جواز میں پیش کیے جاتے ہیں۔ جو کہ بوجہ صحیح حدیثوں کے مخالف ہونے کے ناقابل استدلال ہیں علاوہ ازیں وہی صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کہ جن سے جماعت ہوتے ہوئے سنت فجر پڑھنے کا جواز پیش کیا جاتا ہے انہیں سے بغیر سنت فجر پڑھے جماعت میں شامل ہونے کا اور پھر امام کے ساتھ سلام پھیرنے کے بعد سنت فجر ادا کرنے کا بھی ثبوت موجود ہے۔
سوال شق ثانی یہ ہے کہ جو شخص سنت فجر جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے نہ پڑھ سکا تو بعد نماز فرض پڑھ سکتا ہے… چنانچہ ترمذی شریف میں ہے۔ حضرت قیس بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
قال خرج رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم فاقیمت الصلٰوة فصلیت معه الصبح ثم الصرف النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوجدنی اصلّی فقال مھلا یاقیس اصلاتان معاً قلت یا رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم انی لم أکن رکعت رکعتی الفجر قال فلا اذن
’’فرمایا قیس رضی اللہ عنہ صحابی نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور نماز فرض کی جماعت کھڑی ہوئی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز فرض پڑھی۔ بعد سلام پھیرنے کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا تو آپ نے فرمایا ٹھہر جائو قیس کیا تو دو نماز اکٹھی پڑھتا ہے؟ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دو رکعت سنت فجر کی نہیں پڑھی تھیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا تو اب کوئی حرج نہیں یعنی ایسی حالت میں سنت فجر بعد سلام پھیرنے کے پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔‘‘
سنن ابو داؤد میں یہ حدیث ان الفاظ سے مروی ہے۔
عن قیس ابن عمرو قال رأی رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم رجلا یصلی بعد صلٰوة رکعتین فقال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم صلٰوة الصبح رکعتان فقال الرجل انی لم أکن صلیت الرکعتین اللتینج قبلھما فصلیت ھما الان فسکت رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم
’’روایت ہے حضرت قیس نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو بعد نماز صبح کے دو رکعت نماز پڑھ رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صبح کی نماز دو رکعت ہے تو اس شخص نے عرض کیا کہ میں نے دو رکعت سنت فجر نہیں پڑھی تھیں۔ سو اس وقت میں نے ان دونوں رکعتوں کو پڑھا ہے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے۔‘‘
مرقات شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے۔
وقال ابن الملك سکوته یدل علی قضاء سنة الصبح بعد فرضه لمن لم یصلیھا قبله
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاموش ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص کی سنت فجر رہ گئی ہوں وہ بعد نماز فرض کے سنت فجر پڑھ لے اور سنت فجر کی قضاء بعد طلوع آفتاب کے بھی جائز ہے۔‘‘
 غرض سنت فجر جو جماعت میں شریک ہونے کی وجہ سے رہ گئی ہوں دونوں طرح سے پڑھی جائز ہے قبل از طلوح آفتاب بھی اور بعد از طلوع آفتا ب بھی۔
(الاعتصام لاہور جلد ۹ شمارہ ۸)

قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل

جلد 02

محدث فتویٰ

تبصرے