السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا گائے یا اونٹ سے عقیقہ کیا جا سکتاہے یا نہیں؟۔ قربانی میں گائے کے سات اور اونٹ کے دس حصے ہوتے ہیں۔ عقیقہ میں گائے یا اونٹ کی کیا صورت ہو گی؟(عبدالرشید) (۲۴ نومبر۱۹۹۵ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ جمہور اہل علم جواز کے قائل ہیں۔(فتح الباری(۵۹۳/۹) میں بحوالہ ’’طبرانی‘‘ اور ’’ابو الشیخ‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاًایک روایت نقل کی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
’یَعُقُّ عَنْهُ مِنَ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ وَالْغَنَمِ‘
’’یعنی لڑکے کی طرف سے اونٹ ،گائے ، بکری کا عقیقہ کیا جائے ۔‘‘
لیکن کسی حدیث میں حصوں کی تصریح نہیں۔اسی بناء پر اہل علم کااس بارے میں اختلاف ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ پورے اونٹ اور گائے کے قائل ہیں اور امام رافعی رحمہ اللہ کا کہنا ہے قربانی کی طرح اس میں بھی سات حصے ہو سکتے ہیں۔ اونٹ میں دس کا بھی جواز بیان کیا گیا ہے۔ شاید انھوں نے عقیقہ کو قربانی پر قیاس کیا ہو۔ لیکن اونٹ کی قربانی میں دس کی شراکت بذاتِ خود مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ پس دلائل کے اعتبار سے راجح مسلک یہ ہے کہ بکری یا ایک مینڈھا عقیقہ کیا جائے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
’ عَنِ الغُلاَمِ شَاتَانِ مُکَافِئَتَانِ، (وَعَنِ الجَارِیَةِ شَاةٌ‘سنن ابن ماجه،بَابُ الْعَقِیقَةِ،رقم:۳۱۶۲، سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی العَقِیقَةِ،رقم:۱۵۱۳)
اونٹ اور گائے کے جواز والی بالا روایت سخت ضعیف اور ناقابلِ حجت ہے۔ بلکہ علامہ البانی نے ’’الارواء‘‘ ( ۳۹۳/۴) میں اس کو من گھڑت قرار دیا ہے۔ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی خاموشی پر تعجب کا اظہارکیا ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اونٹ کے عقیقہ کا سختی سے انکار کیا ہے۔ اور بطورِ استدلال حدیث ’عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ‘ پیش کی ہے۔(رواہ الطحاوی والبیہقی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب