السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عقیقہ میں جانور کا مسنّہ ہونا ضروری ہے یا نہیں؟ اور عقیقہ کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ آیا جانور ذبح کر کے تقسیم کر دیا جائے یا پکا کر لوگوں کو کھلایا جائے؟ نیز بعض جاہل لوگوں کا خیال ہے کہ بچے کے والدین عقیقہ کا گوشت نہ کھائیں۔ کیا یہ صحیح ہے؟ (عبد الستار) ( ۴۔ اپریل ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقیقہ کے جانور کے بارے میں کسی حدیث میں تصریح وارد نہیں۔ صرف’مُکافِئَتَانِِ‘(سنن الترمذی، بَابُ مَا جَاء َ فِی العَقِیقَۃِ،رقم:۱۵۱۳) کا لفظ آیا ہے اور اس کے معنی میں اختلاف ہے کسی کے نزدیک قربانی کے جانور کے برابر اور بعض نے کہا ایک دوسرے کے برابر اور ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ ذبح ہونے میں برابر یعنی ایک دوسرے کے متصل ذبح کیے جائیں۔ لہٰذا احتیاط اس میں ہے کہ مُسنّہ ذبح کیا جائے اور عقیقہ کے جانور کے گوشت کا حکم قربانی جیسا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَأَطعِمُوا القانِعَ وَالمُعتَرَّ ...﴿٣٦﴾... سورة الحج
’’یعنی مانگنے اور نہ مانگنے والے سب کو کھلاؤ۔‘‘
فقہاء حنابلہ بعض روایات کی بناء پر اس بات کے قائل ہیں کہ قربانی وغیرہ کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک حصہ اہل و عیال کے لیے، دوسرا احباب کے لیے اور تیسرا فقراء و مساکین پر تقسیم کر دیا جائے۔ (ملاحظہ ہو:مرعاۃ المفاتح: ۲/ ۳۲۹)
اور عقیقے کا گوشت والدین کے لیے ممنوع قرار دینا محض جاہلی رسم ہے شریعت میں اس کا کوئی اصل نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب