السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے بچے کا عقیقہ نہیں کیا۔ اب بچہ پانچ ماہ کا ہونے والا ہے کیا ہم اب بھی عقیقہ کر سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ کئی لوگوں نے بچوں، بچیوں کا عقیقہ نہیں کیا ۔ کیا وہ اب بھی کئی سال کے بعد بچوں کا عقیقہ کر سکتے ہیں۔ صحیح طریقہ اور مقدار بھی بتادیں؟(ام طلحہ۔جہلم) (۱۲ فروری ۱۹۹۹ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جامع ترمذی میں حدیث ہے:
’یُذْبَحُ عَنْهُ یَوْمَ السَّابِعِ ‘ (سنن الترمذی،بَابٌ مِنَ الْعَقِیقَةِ،رقم:۱۵۲۲، سنن ابن ماجه،بَابُ الْعَقِیقَةِ،رقم:۳۱۶۵)
’’یعنی بچے کی طرف سے ولادت کے ساتویں روز عقیقہ کیا جائے۔ ‘‘
امام مالک رحمہ اللہ بھی اسی بات کے قائل ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک یومِ ولادت اس میں شامل نہیں۔ الا یہ کہ بچہ طلوعِ فجر سے پہلے پیدا ہو، لیکن اطلاقِ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ولادت کا دن بھی اس میں شامل ہے۔ محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ پھر ظاہر حدیث اس بات پر دال ہے کہ عقیقہ کیلیے ساتواں دن مقرر ہے۔ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’قُلْتُ وَالظَّاهِرُ أَنَّ الْعَقِیقَةَ مُؤَقَّتَةٌ بِالْیَوْمِ السَّابِعِ فَقَوْلُ مَالِكٍ هُوَ الظَّاهِرُ وَاللَّهُ تَعَالَی أَعْلَمُ .
وَأَمَّا رِوَایَةُ السَّابِعِ الثَّانِی وَالسَّابِعِ الثَّالِثِ فَضَعِیفَةٌ کَمَا عَرَفْتَ فِیمَا مَرَّ ‘ (تحفةالاحوذی:۱۱۶/۵،طبع مصری)
’’یعنی میں کہتا ہوں عقیقہ کے لیے ساتواں دن مقرر ہے۔ مالک رحمہ اللہ کا قول ہی ظاہر ہے۔(وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَتَعَالٰی اَعْلَمُ ۔)، اور جہاں تک تعلق ہے دوسرے اور تیسرے ہفتے میں عقیقہ کرنے کا۔ سو یہ روایات کمزور ہیں۔‘‘
جس طرح کہ ہماری سابقہ وضاحت سے آپ کو معلوم ہوا ہے۔ محترم آپ کا بچہ چونکہ پانچ ماہ کاہونے والا ہے اس کا اور دیگر زائد مدت بچوں کا عقیقہ اب نہیں ہو سکتا۔ عقیقہ صرف ساتویں روز ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب