السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عقیقہ واجب ہے ؟ جو شخص عقیقہ نہ کر سکتا ہو تو اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ ( محمد جہانگیر، آزاد کشمیر) (۱۸ اکتوبر ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عقیقہ کے وجوب اور عدمِ وجوب میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ ظاہر بات یہ ہے کہ حتی المقدور عقیقہ کا اہتمام ہونا چاہیے۔کاہلی اور سستی سے گناہ گار ہونے کا اندیشہ ہے ۔ ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ وجوب کے قائل ہیں۔
جب کہ امام شوکانی رحمہ اللہ کا نظریہ استحباب کا ہے۔ لیکن شیخنا رحمہ اللہ نے علامہ شوکانی رحمہ اللہ سے موافقت نہیں کی بلکہ ان کے خلاف دلائل پیش کیے ہیں۔ ملاحظہ ہو: فتاویٰ اہل حدیث (۳۰۸،۳۰۹/۳) اور جس کو عقیقہ کی استطاعت نہ ہو یہ قابل ِ مؤاخذہ نہیں۔ ممکن ہے اس کو نیت کا ثواب عمل سے زیادہ مل جائے۔ حدیث میں ہے:
’ نِیَّةُ الْمُوْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِهٖ ‘ (المعجم الکبیر للطبرانی،رقم:۵۹۴۲،شعب الایمان،بَابُ إِخْلَاص العمل لله عزوجل،رقم:۶۴۴۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب