السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کی کھالوں کی رقم، امام مسجد کے مکان پر صرف کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ جب کہ جماعت بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ اس بوجھ کو اٹھا سکے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مصارفِ زکوٰۃ میں لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘کو عام سمجھ کر بعض فقہائے کرام نے تمام اُمورِ خیر اور وجوہِ برّ(نیکی کے کاموں) میں مال زکوٰۃ کے صرف کو جائز رکھا ہے۔ مثلاً مُردوں کو کفن دینا۔پُل بنانا۔ قلعے اور مسجدیں تعمیر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اس بنا پر امام مسجدکے لیے مکان کی تعمیر بھی اس میں داخل ہو سکتی ہے کیوں کہ قربانی کی کھالوں اور زکوٰۃ کے مصارف ایک ہی ہیں۔
اس عموم پر اگر کوئی عمل کرے اس پر اعتراض تو امرِ مشکل ہے ۔ ہاں اس میں کچھ تأمل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘اتنا عام ہے تو دیگر مصارف فقراء و مساکین وغیرہ کو ذکر کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ وہ بھی ’’فی سبیل اللہ‘‘میں شامل ہیں۔
جب ان کو علیحدہ بیان کیا گیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘کسی خاص شئے کا نام ہے۔ وہ ہے جہاد یا حج عمرہ، جہاد تو بالاتفاق مراد ہے اور حج عمرہ کو حدیث نے داخل کردیا ہے چنانچہ ’’تفسیر فتح البیان‘‘ میں ہے:
’ وَالاَوَّلُ اَوْلٰی لِاجْمَاعِ الْجَمْهُوْرِ عَلَیْهِ ‘
’’یعنی پہلی صورت جہاد( مع حج) مراد ہونا بہتر ہے کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔‘‘
اور ’’تفسیر خازن‘‘ میں ہے:
’ اَلْقَوْلُ الاَوَّلُ هُوَ لِاِجْمَاعِ الْجَمْهُوْرِ عَلَیْهِ ‘
’’یعنی پہلا قول ہی صحیح ہے کیونکہ اس پر جمہور کا اجماع ہے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب