السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں قربانی کی گائے کسی سے خریدی جاتی ہے یا کوئی حصہ دار اسے پالتا رہتا ہے۔ وہ پالنے والا جو خود بھی حصہ دار ہوتا ہے، قربانی کے دوسرے حصہ داروں کے اتفاق سے سر اور چمڑا اپنے حصے کی قیمت میں شامل کرکے رکھتا ہے۔ یا سب حصے داروں کے اتفاق سے کسی خریدنے والے کے ہاتھوں خصوصاً کھال فروخت کی جاتی ہے۔ بہرحال سر اور کھال دونوں فروخت کرنے یا کسی حصے دار کے اسے رکھنے کے نتیجے میں دوسرے حصہ داروں کے حصص کی قیمت میں کمی آتی ہے۔ تو کیا یہ صورت گوشت اور کھال فروخت کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔، جس سے منع کیا گیا ہے ؟ یا یہ صورت جائز ہے ؟ بَیِّنُوْا تُوجرُوْا۔ (عبدالرحیم۔ بلتستان) (۹ اگست ۲۰۰۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصلاً قربانی سے مراد وہ جانور ہے۔ جو عید کے دن اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے ذبح کیا جاتا ہے اور وہ شئے ایک ہے اس میں شراکت نہیں ہونی چاہیے۔ اس لیے اہل علم کہتے ہیں کہ مختلف نیتوں کے ساتھ افراد اس میں شریک نہیں ہو سکتے ۔ مثلاً بعض کی نیت محض حصولِ گوشت کی ہو اور دیگر کی نیت قربانی کی تو اس طرح قربانی نہیں ہوگی۔ شریعت نے سات کی شراکت کی جو سہولت دی ہے یہ صرف رب العزت کا احسان ہے یہ حکم اپنے محل پر بند رہے گا۔
دوسری طرف اس شخص کی نیت کے خلوص میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جس سے اس قربانی کے ضائع ہونے کا اندیشہ پیدا ہو جاتا ہے۔ بنابریں سر اور کھال کی تخصیص نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ اس میں سب حصہ دار برابر ہیں۔اور کھال تو ویسے بھی فقراء اور مساکین کا حق ہے جس کا لحاظ رکھنا از بس ضروری ہے۔ دوسری طرف ’’ترغیب وترہیب‘‘ میں حدیث ہے:
’ مَنْ بَاعَ جِلْدَ اُضْحِیَةٍ فَلَا اضْحِیَةَ لَهٗ ‘ (المستدرك للحاکم،تَفْسِیرُ سُورَةِ الْحَجِّ، رقم:۳۴۶۸)
’’جس نے قربانی کا چمڑا فروخت کیا اس کی قربانی نہیں۔‘‘
اسی طرح قربانی کا گوشت کرنا بھی بالاتفاق ممنوع ہے۔ شخص ہذا اس زد میں بھی آتا ہے۔ لہٰذا اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ گائے پالنے والے کو باقاعدہ الگ سے مزدوری دی جائے جس کے ذمہ دار سب شرکاء ہوں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب