سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(537) کیا بھینس کی قربانی جائز ہے ؟

  • 25652
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 554

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بعض علمائے کے نزدیک بھینس کی قربانی جائز ہے اور بعض کے نزدیک نہیں۔ برائے مہربانی اس امر کی وضاحت فرمادیں اور بالخصوص شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ یا آپ کے استاذ حضرت علامہ ناصر الدین البانی;کا اس کے متعلق کیا خیال ہے ؟(سائل) (۲۶ اپریل ۲۰۰۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصلاً قربانی صرف بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ کی ہے اور وہ اونٹ گائے، بکری، دنبہ، چھترا، نبیﷺ اور صحابہ کرام سے ان کے علاوہ قربانی ثابت نہیں۔ البتہ حنفیہ کے نزدیک بھینس کی قربانی کاجواز ہے۔ اس سلسلہ میں انھوں نے ’’مسند الفردوس دیلمی‘‘ کی طرف منسوب ایک حدیث ذکر کی ہے لیکن اس کا حال غیر معلوم ہے اور بھینس کو گائے کی قسم قرار دینا تساہل ہے ۔

’’ابن ابی شیبہ‘‘ میں حسن سے منقول ہے کہ بھینس بمنزلہ گائے ہے یا یہ کہنا کہ وہ گائے کی طرح ہے یہی اصل ہے جب کہ سب لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ بھینس گائے سے علیحدہ قسم ہے۔ا گر کسی نے قسم کھائی کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا بھینس کا کھا لیا تو وہ حانث نہیں ہوگا۔ یعنی اس طرح قسم نہیں ٹوٹے گی۔اس بناء پر اطمینان بخش بات یہ ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے اور اگر کوئی کرلے تو اس پر ملامت نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو (فتاویٰ اہل حدیث لشیخنا، محدث روپڑی(۴۲۶/۲)

’’ مرعاۃ المفاتیح‘‘(۳۵۳/۲۔۳۵۴) اور مشارٌ الیہ شیوخ بھی صرف بَهِیْمَةُ الْاَنْعَام کے قائل ہیں اور ہمارے شیخ صاحب تفسیر ’’اضواء البیان‘‘ فرماتے ہیں۔

’ وَمُرَاجَعَةُ الْحَقِّ خَیْرٌ مِنْ التَّمَادِی فِی الْبَاطِلِ۔‘ (۶۳۵/۵)

’’ظاہری آیت کی بناء پر زیادہ احتیاط والا مسلک یہ ہے کہ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ کے علاوہ قربانی نہ کی جائے۔‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:418

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ