سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(535) بھینس یا بھینسے کی قربانی جائز ہے ؟

  • 25650
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 526

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا بھینس یا بھینسے کی قربانی جائز ہے؟ نیز قربانی کے گوشت کا صحیح مصرف کیا ہے؟ قربانی کے جانور کو حلال کروانے کی اجرت کھال میں سے دی جاسکتی ہے؟ اور جانوروں کی کھالوں کا صحیح مصرف کیا ہے؟ (غلام عباس طاہر لیل، ضلع جھنگ)(۲۲ جون ۲۰۰۷)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 1… شریعت میں قربانی صرف بَھِیْمَةُ الْاَنْعَامِ کی ہے اور اس کا اطلاق اونٹ گائے اور بھیڑ بکری پر ہے۔ بھینس چوں کہ علیحدہ صنف معروف ہے اس کی قربانی نہیں ہوگی۔

اگر کوئی قسم کھالے کہ گائے کا گوشت نہیں کھائے گا پھر بھینس کا کھا لیا تو اس سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی لیکن حنفی مذہب میں بھینس کی قربانی کا جواز ہے۔ ’’کنوز الحقائق‘‘ میں ایک حدیث بیان ہوئی جس میں بھینس کی قربانی کا جوا زہے لیکن اس کی صحت ثابت نہیں باقی یہ دعویٰ کہ بھینس گائے کی قسم ہے واقعہ کے خلاف ہے۔

ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں۔ ہاں زکوٰۃ کے مسئلہ میں بھینس کا حکم گائے والا ہے۔ یعنی نصاب کی صورت میں زکوٰۃ واجب ہے۔ نیز فرمایا یاد رہے کہ بعض مسائل احتیاط کے لحاظ سے دو جہتوں والے ہوتے ہیں اور عمل احتیاط پر کرنا پڑتا ہے۔ ام المومنین سودہ کے والد زمعہ کی لونڈی سے زمانہ جاہلیت میں عتبہ بن ابی وقاص نے زنا کیا لڑکا پیدا ہوا جو اپنی والدہ کے پاس پرورش پاتا رہا۔ زانی مر گیا اور اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ  کو وصیت کرگیا کہ زمعہ کی لونڈی کا لڑکا میرا ہے اس کو اپنے قبضہ میں کرلینا۔ فتح مکہ کے موقعہ پر سعد بن ابی وقاص نے اس لڑکے کو پکڑ لیا اور کہا یہ میرا بھتیجا ہے۔ زمعہ کے بیٹے نے کہا یہ میرے باپ کا بیٹا ہے۔ لہٰذا میرا بھائی ہے اس کو میں لوں گا۔ مقدمہ دربار نبوی میں پیش ہوا تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’ الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الحَجَرُ۔‘ صحیح البخاری، بَابٌ: لِلْعَاهِرِ الحَجَرُ،رقم:۶۸۱۷،(مشکوة باب اللعان، فصل اول)

یعنی ’’اولاد بیوی والے کی ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔‘‘

 یعنی وہ ناکام ہے اور اس کا حکم سنگسار کیا جانا ہے، بچہ سودہ کے بھائی کے حوالے کردیا جو حضرت سودہ  رضی اللہ عنہا  کا بھی بھائی بن گیا لیکن سودہ کو حکم فرمایا اس سے پردہ کرے۔ کیوں کہ اس کی شکل وصورت زانی سے ملتی جلتی تھی جس سے شبہ ہوتا تھا کہ یہ زانی کے نطفہ سے ہے۔ اس مسئلہ میں شکل وصورت کے لحاظ سے تو پردہ کا حکم ہوا اور جس کے گھر میں پیدا ہوا اس کے لحاظ سے اس کا بیٹا بنا دیا گیا۔ گویا احتیاط کی جانب کو ملحوظ رکھا۔ ایسا ہی بھینس کا معاملہ ہے اس میں بھی دونوں جہتوں میں احتیاط پر عمل ہوگا زکوٰۃ ادا کرنے میں احتیاط ہے اور قربانی نہ کرنے میں احتیاط ہے اس بناء پر بھینسے کی قربانی جائز نہیں اور بعض نے جو یہ لکھا ہے: ’ اَلْجَامُوْسُ نَوْعٌ مِنَ الْبَقَرِ ‘ یعنی بھینس گائے کی قسم ہے یہ بھی اس زکوٰۃ کے لحاظ سے صحیح ہوسکتا ہے ورنہ ظاہر ہے کہ بھینس دوسری جنس ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث: ۲/ ۲۲۶، ۲۲۷)

2… قربانی کے گوشت کے تین حصے کرلیے جائیں۔ ایک گھر کے لیے دوسرا احباب تیسرا غرباء مساکین کے لیے۔ اس سلسلہ میں مستند ابن مسعود سے مروی ایک روایت ہے۔ (المغنی: ۱۳/ ۳۷۹)

3… قربانی کے جانور کو ذبح کروانے کی اجرت میں کھال وغیرہ نہیں دینی چاہیے۔ ملاحظہ ہو :(صحیح بخاری باب لا یعطی الجزاء من الہدی شیئا)

4… کھالیں صدقہ کردینی چاہئیں’’صحیح بخاری‘‘یتصدق بجلود الہدی مع فتح الباری :۳/ ۷۰۲۔ ان سے خود بھی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث :۲/۴۴۰

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:416

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ