سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(533) بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟

  • 25648
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 938

سوال

(533) بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

بھینس کی قربانی جائز ہے یا ناجائز؟ علمائے بہاول پور کا موقف یہ ہے کہ بھینس کی قربانی کا چونکہ رسول اللہﷺ،صحابہ کرام سے کوئی ثبوت نہیں۔ اور قرآن پاک کی ’’سورہ الانعام‘‘ کی (آیت ـ۴۴) میں آٹھ نر و مادہ جانوروں کا ذکر ہے اور ان میں بھیس شامل نہیں۔ لہٰذا اس کی قربانی بھی نہیں۔ (یہاں سے قربانی کا استدلال جائز نہیں۔ کیونکہ یہ سورہ مکی ہے اور احکامِ قربانی مدینہ میں نازل ہوئے) جب کہ دوسرے شہروں سے یہاں آنے والے علمائے کرام کا موقف اس کے برعکس ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھینس کی قربانی اگرچہ مسنون نہیں مگراس کا جواز ضرور ہے کیونکہ ’’سورۃ الحج‘‘ آیت نمبر:۳۴/۲۸ میں اللہ تعالیٰ نے قربانی کے لیےبَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ (چوپائے) کی شرط لگائی ہے۔ اور بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ کا لفظ عام ہے جس کو اجماع امت نے گھریلو پالتو جانوروں کے ساتھ خاص کیا ہے اور یہ بھی باجماع امت سب پر واضح ہے کہ بھینس بھی پالتوبَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ میں سے ہے لہٰذا باقی جانوروں کی طرح یہ بھی قربانی کے جانوروں میں داخل ہے۔

اگر اس آیت یعنی ’’سورۃ الحج‘‘ والی مدنی آیت کو ’’سورۃ الانعام‘‘ والی مکی آیت سے بھی خاص مان لیں اوربَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ سے ابل، بقر، اور غنم مراد لیں تب بھی مسئلہ واضح ہے کیونکہ اہل لغت اورفقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس بقر کی نوع ہے لہٰذا جس طرح بقر قربانی کے جانوروں میں شامل ہے کسی صریح اور صحیح دلیل کے بغیر اس کوبقرسے خارج کرنا ثابت نہیں۔ مزید برآں احکام قربانی پروری دنیا کے لیے ہیں ۔اس کو دنیا کے کسی خاص علاقے کے ساتھ محدود کرنا درست نہیں۔

یہاں پر یہ مسئلہ باعث ِ نزاع بنا ہوا ہے۔ لہٰذاآپ اس بارے میں اپنی تحقیق کی روشنی میں فتویٰ ارسال فرما کر عنداللہ ماجور ہوں تاکہ ضعیف موقف ہم پر واضح ہو جائے۔ (محمد حنیف وینس، گنج بازار ،بہاولپور) (۱۹ جون۱۹۹۸ئ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بھینس کی قربانی درست نہیں۔ کیوں کہ یہ بَهِیْمَةُ الْاَنْعَامِ میں شامل نہیں جن کی قربانی کا قرآن میں حکم ہے، وہ ہیں دنبہ، بکری،اونٹ ،گائے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔ مرعاۃ المفاتیح(۳۴۴/۲۔۳۴۵) اور فتاویٰ اہل حدیث:۴۲۶/۲۔۴۲۷)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:415

محدث فتویٰ

تبصرے