سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(527) جانور کو خصی کرنے والی حدیث اگر صحیح ہے تو پھر اس کی قربانی کرنا کیسا ہے ؟

  • 25642
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 932

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

’وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ۔صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَهَی عَنْ صَبْرِ ذِی الرُّوحِ وَعَنْ إِخْصَاء ِ الْبَهَائِمِ نَهْیًا شَدِیدًا‘(مجمع الزوائد،ج:۵،ص:۲۶۵،بَابُ النَّهْیِ عَنْ خِصَاء ِ الْخَیْرِ وَغَیْرِهَا،رقم:۹۳۶۸)

۱۔         یہ حدیث سند کے لحاظ سے کیسی ہے ؟

۲۔        اگر صحیح ہے تو جانور کا خصی کرنا پھر اس کی قربانی کرنا کیسا ہے ؟ (سائل) (۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی اس حدیث کے بارے میں امام شوکانی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں:

’وَ اَخْرَجَ الْبَزَّارُ بِاِسْنَادٍ صَحِیْحٍ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَبَّاسٍ ۔‘( نیل الاوطار،۹۱/۸)

’’یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما  کی حدیث کو بزار نے بسند صحیح بیان کیاہے۔‘‘

صاحب’’مجمع الزوائد‘‘ نے کہا ہے:

’رِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِیْحِ۔‘ (۲۶۵/۵)

’’اس حدیث کے راوی صحیح کے راوی ہیں۔‘‘

یعنی صحیح کے راویوں جیسے اوصاف ان راویوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ  نے اپنے ’’فتاویٰ‘‘ میں مسئلہ ہذا پر خوب سیر حاصل بحث کی ہے جو لائق مطالعہ ہے۔ اختتام بحث پر فرماتے ہیں:

’’ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کا خصی کرنا جائز نہیں اور جن کاگوشت کھایا جاتاہے ان کا خصی نہ کرنا افضل ہے۔ اور عزیمت کا یہی تقاضا ہے، البتہ خصی کرنا جائز ہے ۔ اور اس کی اجازت ہے۔‘‘ (ص:۳۳۳)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:412

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ