سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(523) کیا خصی جانور قربانی جائز ہے؟

  • 25638
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 464

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ بکرا اگر خصی ہو تو اس میں عیب پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے قربانی میں شک پیدا ہو گیا ہے۔ آپ براہِ مہربانی اس کی وضاحت تحریر فرمائیں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔(محمد زکریا بھٹی سلانوالی۔ سرگودھا ) (۱۹ اپریل ۱۹۹۵ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

خصی شدہ بکرے کو قربانی کرنا جائز ہے۔ ’’مسند احمد‘‘ اور ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ کی بعض روایات میں موجود ہے کہ رسول اللہﷺ نے خصی شدہ نَر دُنبوں کی قربانی کی ہے۔(مسند احمد برقم:۲۵۸۸۶، سنن ابن ماجه،بَابُ أَضَاحِیِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،رقم: ۳۱۲۲۔) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  ’’فتح الباری‘‘ میں امام قرطبی سے نقل فرماتے ہیں کہ آدمی کی طرح جانوروں کو خصی کرنا درست نہیں۔ سوائے اس کے کہ اس سے گوشت کو بہتر بنانا یا اس کے ضرر سے محفوظ رہنا مقصود ہو۔

امام خطابی فرماتے ہیں:

’وَفِی هَذَا دَلِیلٌ عَلَی أَنَّ الْخَصِیَّ فِی الضَّحَایَا غَیْرُ مَکْرُوهٍ وَقَدْ کَرِهَهُ ۔ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِنَقْصِ الْعُضْوِ وَهَذَا النَّقْصُ لَیْسَ بِعَیْبٍ لِأَنَّ الْخِصَاء َ یَزِیدُ اللَّحْمَ طِیبًا وَیَنْفِی فِیهِ الزُّهُومَةَ وَسُوء َ الرَّائِحَةِ ۔‘ (عون المعبود: ۵۳/۳)

اصلاً مسئلہ ہذا سلف صالحین میں شدید ترین اختلافی مسائل میں سے ایک ہے۔

علامہ شمس الحق عظیم آبادی نے ’’القول المحقق‘‘ میں اس مسئلہ پر بڑی تفصیلی اور ناقدانہ بحث فرمائی ہے۔ اور اخیر میں اس کا نچوڑ یوں بیان فرمایا ہے۔ کہ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جن جانوروں کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کا خصی کرنا جائز نہیں اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا خصی کرنا افضل ہے۔ اور عزیمت کا یہی تقاضا ہے۔ ہاں خصی کرنا جائز ہے اور اس کی اجازت ہے۔ (فتاویٰ عظیم آبادی:،ص:۳۳۳)

مسئلہ ہذا پر میرا ایک تفصیلی فتویٰ ’’الاعتصام ‘‘ میں پہلے شائع ہو چکا ہے۔ اس کی طرف رجوع بھی مفید ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:409

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ