سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(502) امت کی طرف سے قربانی کا ذکر

  • 25617
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-19
  • مشاہدات : 616

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جس حدیث پاک میں حضور ﷺ کی ایک قربانی امت کی طرف سے کرنے کا ذکر ہے اس میں یہ صاف ذکر ہے کہ یہ قربانی میری امت کے ان افراد کی طرف سے ہے جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے۔ اس سے صاف ظاہر ہے اس میں صرف ایسے افراد ہی شامل ہوتے ہیں جو اُس وقت زندہ تھے اور قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ رہی دوسری حدیث جس میں حضور ﷺ کا حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو آپ ﷺ کی طرف سے قربانی کرنے کے لیے وصیت کا ذکر ہے تو اس کی رو سے وصیت شرط ہے۔ تو پھر کیا وصیت کی عدم موجودگی میں بھی میت کی طرف سے قربانی کی جاسکتی ہے؟ (سائل)(۱۱ ۔اپریل ۲۰۰۸ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی ﷺ نے جو قربانی کی تھی وہ امت کے تمام افراد کی طرف سے تھی۔ عدم استطاعت کی قید حدیث میں موجود نہیں۔ حدیث کے الفاظ ’ وَ عَمَّنْ لَمْ یُضَحِّ مِنْ اُمَّتِیْ‘ سب کو شامل ہیں چاہے کسی کو استطاعت ہو یا نہ ہو، اور چاہے وہ موجود ہو یا فوت شدہ۔ جس طرح کہ ’ وَعَنْ مُحَمَّدٍ وَ اُمَّتِهِ ‘  سب افراد امت کو شامل ہے۔ انہی الفاظ سے شارحین حدیث کا استدلال ہے کہ قربانی واجب نہیں۔ کیوں کہ ’ وَ عَمَّنْ لَمْ یُضِحِّ ‘ بلا استثناء سب کو شامل ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ کی طرف سے مطلقاً قربانی ہوسکتی ہے وصیت کی ہو یا نہ کی ہو۔ ’’غنیة الالمعی‘‘ میں ہے جس کا ماحصل یہ ہے:

’ إِنَّ قَوْلَ مَنْ رَخَّصَ فِی التَّضْحِیَّةِ عَنِ الْمَیِّتِ مُطَابِقٌ لِلْاَدِّلَةِ وَ لَا دَلِیْلَ لِمَنْ مَنعَهَا وَ قَدْ ثَبَتَ أَنَّهُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یُضَحِیّ بِکَبْشَیْنِ أَحَدَهُمَا عَنْ نَفْسِهِ وَ أَهْلِ بَیْتِهٖ وَ الْآخَرَ عَنْ اُمَّتِهٖ مَنْ شَهِدَ لَهُ بِالتَّوْحِیدِ وَ شَهِدَ لَهٗ بِالْبَلَاغِ وَ مَعْلُوْمٌ أَنْ کَثِیْرًا مِنْ اُمَّتِهٖ قَدْ کَانُوْا مَا تُوا فِی عَهْدِهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ فِیْ أُضْحِیَتِهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَلْاُحْیَاءُ وَالاَمْوَاتُ کُلُّهُمْ وَ الْکَبْشُ الْوَاحِدُ الَّذِیْ یُضَحِّیْ بِهٖ عَنْ أُمَّتِهِ کَمَا کَانَ لِلْأَحْیَاءِ کَذَالِكَ کَانَ لِلْاَمْوَاتِ مِنْ اُمَّتِهٖ بِلَا تَفْرِقَةٍ وَ لَمْ یَثْبُتُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ کَانَ یَتَصَدَّقُ بِذٰلِكَ الْکَبْشِ کُلِّهٖ وَ لَا یَاْکُلُ مِنْهُ شَیْئًا أَوْ کَانَ یَتَصَدَّقُ بِجُزْئٍ مُّعَیِّنٍ بِقَدْرِ حِصَّةِ الْاَمْوَاتِ بَلْ  قَالَ أَبُوْ رَافِعٍ : ’ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُطْعِمُهَا جَمِیْعًا الْمَسَاکِیْنَ وَ یَاْکُلُ هُوَ وَ أَهْلُهُ مِنْهُمَا ‘  رَوَاهُ اَحْمَدُ وَ کَانَ دَاْبُهُ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أَنَّه یَاْکُلُ مِنَ الْأُضْحِیَةِ هُوَ وَ أَهْلُهُ وَ یُطْعِمُ مِنْهَا الْمَسَاکِیْنَ وَ أَمْرَ بِذٰلِكَ أُمَّتَهٗ وَ لَمْ یُحْفَظْ عَنْهُ خِلَافَهٗ فَإِذَا ضَحَّی الرَّجُلُ عَنْ نَفْسِهٖ وَ عَنْ بَعْضِ أَمْوَاتِهٖ أَوْ عَنْ نَفْسِهٖ وَ عَنْ أَهْلِهٖ وَ عَنْ بَعْضِ أَمْوَاتِهٖ فَیَجُوْزُ اَنْ یَّاکُلَ هُوَ وَ أَهْلُهُ مِنْ تِلْكَ الْأُضْحِیَةِ وَ لَیْسَ عَلَیْهِ أَنْ یَتَصَدَّقَ بِهَا کُلَّهَا نَعَمْ اِنْ تُخصَ الْأُضْحِیَةُ لِلْاَمْوَاتِ مِنْ دُوْنِ شِرْکَةِ الْأَحْیَاءِ فِیْهَا فَهِیَ حَقٌّ ِللْمَسَاکِیْنِ کَمَا قَالَ عَبْدُ اللّٰهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ۔انتهی (المرعاة: ۲/ ۳۵۸، ۳۵۹)

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:379

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ