السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قربانی کا گوشت سب سے پہلے کس نے کھایا تھا؟ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں قربانی کا گوشت آگ کھایا کرتی تھی۔ آگ کے بعد سب سے پہلے کس انسان نے قربانی کا گوشت کھایا تھا؟ اس کا نام بتائیں۔شکریہ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے نذر و نیاز کی حلّت و اباحت حضرت عیسیٰ بن مریم رضی اللہ عنہما کے لیے ہوئی جس طرح کہ ’’تفسیر قرطبی‘‘ و’’ تفسیر بیضاوی‘‘ وغیرہ میں مصرح ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ ان اشیاء کا استعمال انھوں نے کیا ہو گا۔ بعد میں یہی اباحت امت ِ محمدیہ کے لیے برقرار رہی۔‘‘
یہ سوال اور جواب دونوں محل نظر ہیں۔
سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک’’قربانی کے گوشت‘‘ سے مراد اصحاب ِ استطاعت کی طرف سے بڑی عید کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور کا گوشت ہے۔ گمان غالب ہے کہ سائل کا اشارہ بھی اسی قسم کے گوشت کی طرف ہے۔
لیکن یہودیوںاور عیسائیوں میں قربانی کی اصطلاح کا مفہوم و سیع ہے۔ چنانچہ مرقوم ہے:
قربانی: وہ ہدیہ جو اس غرض سے پیش کیا جائے کہ ہدیہ دینے والا اور لینے والا ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں یا باہمی رفاقت حاصل کریں۔ (قاموس الکتاب مولّفہ پادری ایف ایس خیر اللہ، مطبوعہ ۱۹۸۴ء و صفحہ ۴۳، کالم :۳)
اوّلین قربانی کا بیان بائبل کے ان الفاظ میں ہے:
’’… قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوںکا اور کچھ ان کی چربی لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا پر قائن کو اور اس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔‘‘ (بائبل کی کتاب پیدائش باب:۴)
بائبل کے مشہور مفسر پادری ڈملو لکھتے ہیں:
’’جس طریقہ سے خدا نے اپنی تائید کا اظہار کیا۔ اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تاہم دیکھیں قضاۃ :۶:۲۱،۱۔ سلاطین ۱۸:۳۸،۳۔ تواریخ ۷:۱‘‘ (تفسیر ڈملو صفحہ ۱۱ کالم ۳)
مذکورہ حوالہ جات کی تفصیل یہ ہے:
قضاۃ: ۶:۲۱ ’’…اس پتھر سے آگ نکلی اور اس نے گوشت اور فطیری روٹیوں کو بھسم کردیا۔‘‘
یہ اس امر کا نشان تھا کہ جدعان سے باتیں کرنے والا خدا ہی تھا۔
(۱)۔ سلاطین ۱۸ :۳۸: ’’ تب خداوند کی آگ نازل ہوئی اور اس نے اس سوختنی قربانی کو بکریوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کردیا اور اس پانی کو جو کھائی میں تھا چاٹ لیا۔‘‘
اس موقع پر ایلیاہ نبی کی صداقت جتانا مقصود تھا۔
(۲) ۔ تواریخ ۷:۱ ’’ اور جب سلیمان دعاء کر چکا تو آسمان پر سے آگ اُتری اور سوختی قربانی اور ذبیحوں کو بھسم کردی۔‘‘
جو اس امر کا اعلان تھا کہ سلیمان کی تعمیر کردہ ہیکل خدا کو منظور و مقبول تھی۔
وضاحت: بنی اسرائیل میں یہ سب خاص مواقع تھے۔ اس طرح قربانی کا گوشت پیش کرنا اور انہیں آگ کا کھانا قاعدہ نہیں تھا۔
مفسر کا خیال ہے کہ ہابل کی قربانی کو بھی آگ ہی کھا گئی ہوگی۔
یاد رہے کہ یہودیوں نے آنحضرتﷺ سے مطالبہ کیا تھا اگر اللہ پاک کے سچے نبی ہو تو اپنی قربانی آگ کو کھلا کر دکھاؤ۔ (اٰل عمران:۱۸۳)
کلام مجید میں چھٹے پارہ کے درمیان حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں کا یہی قصہ اپنے الفاظ میں مذکور ہے۔ قربانی کی منظوری کا طریقہ وہاں بھی نہیں بتایا گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے معبودوں کے لیے جانوروں کی قربانیاں گزرانا اقوامِ عالم میں عام تھا۔ اہل اسلام کی زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ امتوں (بشمولِ یہود) کی نماز حق تعالیٰ کے حضور جانور قربانی کرنا تھا۔ پادری فانڈر بتاتے ہیںـ:ـ
’’ جانوروں کی قربانی کی نہایت قدیم رسم جو کہ تمام اقوام میں پائی جاتی تھی۔ اُسے خدا نے جائز ٹھہرایا اور اس کے قواعد تورات میں مقرر کیے۔ تورات میں تعلیم یہ تھی کہ مختلف موقعوں پر مختلف قسم کے جانور قربان کیے جائیں اور ان قربانیوں کی مختلف اغراض تھیں۔‘‘(میزان الحق مصنف پادری سی جی فانڈر ڈی ڈی ،ص:۷۳)
یعنی قربانی کی یہ رسم قدیم سے چلی آرہی تھی۔ جو خدا نے تورات میں بھی قائم رکھی۔ علامہ پال ارنسٹ نے با وضاحت لکھا ہے:
’’ توریت میں قوانین تاریخی باتوں کے ساتھ باترتیب طور پر بیان نہیں کیے گئے بلکہ وہ بکھرے ہوئے ہیں اور پراگندہ صورت میں ہیں۔ اور ان کے لیے ترتیب ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ قوانین ان حالات کی پیداوار ہیں یعنی ان حالات کے مطابق ہیں۔ جو خروج کے وقت اور پھر بعد میں ملک موعود میں تھے۔ وہ قوانین صرف موسوی زمانے ہی کے نہیں بلکہ ما بعد کے زمانے کے بھی ہیں اور صاطلاحات میںجو بہت سے فرق پائے جاتے ہیں، ان فرقوں اور اختلافوں کا باعث بھی وہ مختلف حالات ہی ہیں۔ خروج کے زمانے میں بیابان میں حالات اور طرح کے تھے۔ لیکن ملک موعود میں ان کے حالات اور طرح کے تھے۔ مگر ساری شریعت موسیٰ ؑہی سے منسوب کی گئی ہے۔ کیونکہ وہ سب سے بڑا شارع تھا۔ وہ شریعت کا بانی اورچشمہ تھا۔ تو بعد کے قوانین بھی اسی سے منسوب کیے گئے۔ (حقائق بائبل مقدس مصنفہ علامہ پال ارنسٹ نائٹ آف سینٹ سلولیٹر مطبوعہ ۱۹۷۵ئ۔صفحہ:۳۴۷)
مطلب یہ کہ تورات میں جو شریعت بیان ہوئی ہے وہ ساری کی ساری موسیٰ کی عطا کردہ نہیں ہے۔ بہتیرے احکام موسیٰ کے بعد تورات میں اضافہ کیے گئے ہیں۔ قربانیاں بھی شامل ہیں۔
قرآن کریم کی ’’سورۃ حج‘‘ آیت کریمہ ۳۴ سے بھی واضح ہے کہ قربانی ہر قوم کے لیے مقرر کی گئی تھی۔
’’قربانیوں کے کئی درجے بھی ہیں۔ بیل شاہی قربانی تھی بھیڑ اور بکری عام قربانی تھی۔ فاختہ یا جوان کبوتر غریب آدمی کی قربانی تھی۔ اور جو کی روٹی مفلس کی قربانی تھی۔‘‘ (قاموس صفحہ ۷۴۵ک۲)
قربانی کی معروف متعلقہ اقسام یہ تھیں:
۱۔ سوختنی قربانی: یہ مکمل طور پر جلا دی جاتی تھی۔ (بزبان بائبل یہ قربانیاں’’خدا کی غذا ہیں۔‘‘ (احبار ۳۱:۶) اسلم)
۲۔ نذر کی قربانی: تیل اور لوبان، نمک بھی ساتھ ہوتا تھا۔ اس کا کچھ حصہ مذبح پر جلایا جاتا تھا۔ باقی کو سردار کاہن اور ان کے بیٹے کھاتے تھے۔
۳۔ سلامتی کا ذبح: اس کا ایک حصہ تو مذبح کے اوپر جلا دیا جاتا تھا۔ لیکن باقی کو قربانی گزارنے والا اور کاہن کھاتے تھے۔ (قاموس،ص:۷۴۴)
۴۔ عید نسح : پر قربان کیے جانے والے بکرے کا سارا گوشت کھایا جاتا ہے۔ (خروج باب:۱۲)
نذر کی روٹیاں: ہیکل میں نذر کی میز پر رکھی جاتی تھیں۔ ہر ساتویں دن خداوند کے حضور سے اٹھائی جاتی تھیں اور کاہن ان کی جگہ تازہ گرم روٹیاں رکھتے تھے۔(۱۔ سموئیل ۲۱:۶) پرانی روٹیاں کاہنوں کی بالائی یافتہ تھیں۔ وہ انھیں لے کر کسی پاک جگہ کھاتے تھے۔(احبار ۲۴:۹)
القصہ قربانیوں کی اقسام کا گوشت خود جلایا تھا۔ باقی قربانیوں کا تھوڑا سا گوشت مذبح پر جلا کر باقی گوشت ہیکل ( یہودی مسجد) کے مولوی اور قربانی پیش کرنے والا کھاتے تھے۔
نذر کی روٹیاں بھی حسب قاعدہ مولوی صاحبان اور انکے یار بیلی کھایا کرتے تھے۔
ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں قربانی کا گوشت آگ کے کھانے کی روایت ہمارے مطالعہ میں نہیں آسکی۔
بت پرستوں کے مندروں میں بتوں کے لیے جو قربانیاں کی جاتی تھیں ان کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ (قاموس الکتاب،صفحہ: ۱۳۸ ،ک:۱)
یہودی قربانی کا گوشت کھاتے تھے۔ قربانی کے جلائے جانے والے گوشت کو خود نذرِ آتش کرتے تھے۔ آسمان سے آگ آکر نہیں کھایا کرتی تھی۔ نذریں نیازیں بھی کھائی جاتی تھیں۔
’’نذرو نیاز کی حلت و اباحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے موجود تھی۔‘‘
اسلام میں قربانی کی معروف ترین صورت عید اضحی کے موقع پر سنت ِ ابراہیمی کی یاد میں جانور قربان کرنا ہے۔ اس کا سارے کا سارا گوشت کھایا جاتا ہے۔(سورۃ حج آیات:۳۶۔۳۷) اس سلسلہ میں مسلم تفاسیر کا تذکرہ بلاضرورت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب