کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کی نماز ظہر قضاء ہو گئی اور وہ ایسے وقت پر مسجد میں آیا جبکہ نماز عصر کی جماعت قائم ہو گئی تھی آیا وہ ظہر کی نیت سے مسجد میں شامل ہووے یا علیحدہ ظہر ادا کرے یا عصر کی نماز جماعت سے ادا کر کے پھر بے وقت ظہر ادا کرے۔ بینوا توجروا۔
اس کو چاہیے کہ عصر کی نماز جماعت میں شامل ہو کر ادا کرے۔ ظہر کی نیت سے نماز عصر میں ہر گز شامل نہ ہووے۔ اور نہ جماعت کے ہوتے ہوئے علیحدہ ادا کرے۔ مسند امام احمد میں مروی ہے:
قال رسول اللّٰہ صلی اللہ علیه وسلم إذا اقیمت الصلٰوة فلا صلٰوة إلا المکتوبة التی اقیمت کذا فی فتح الباری
’’یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز فرض کے لیے جماعت قائم ہو تو اس وقت سوا اس نماز کے جس کی جماعت قائم ہوئی اور کوئی نماز صحیح نہیں ہوتی۔‘‘
فتح الباری میں اس حدیث کی نسبت مذکور ہے۔
واستدل بقوله التی اقیمت بان المأموم لا یصلی فرضا ولا نقلا خلف من یصلی فرضا اخر کالظہر مثلا خلف من یصلی العصر وان جازت اعادة الفرض خلف من یصلی ذلك الفرض
’’یعنی یہ حدیث ان لوگوں کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ مقتدی کو نہ چاہیے کہ اس امام کے پیچھے جو عصر پڑھتا ہے نماز ظہر ادا کرے یہی کیفیت باقی نمازوں کی ہے۔اگرچہ ایک فرض مثلاً عصر کا اول پڑھ کر دوسری بار امام کے پیچھے ادا کرنا جائز ہے لیکن ایسی حالت میں دوسرے فرض کا ادا کرنا جائز نہیں۔‘‘
امام شافعی اور اکثر اہل حدیث و اہل الرائے کا یہی مذہب ہے فتح الباری میں مذکور ہے۔
واختلفوا فیما اذا تذکر فائتة فی وقت حاضرة ضیق ھل یبداء بالفائتة وان خرج وقت الحاضرة او یبداء بالحاضرة او یتخیر فقال بالأول مالك وقال بالثانی الشافی واصحاب الرای أکثر اصحاب الحدیث وقال بالثالث اشہب الخ
صحیح بخاری وغیرہ میں اس قدرا لفاظ ہیں
إذا أقیمت الصلوة فلا صلوة إلا المکتوبة
مگر اس سے بھی اپنا مدعا ثابت ہوتا ہے کیونکہ المکتوبۃ صفت موصوف محذوف یعنی الصلوۃ کی ہے اور الصلوۃ معرفہ اس کلام میں مکرر آیا ہے اور اصول مقرر ہو چکا ہے کہ صورت مذکورہ میں دوسرا معرفہ عین اول کا ہوتا ہے۔ علاوہ برآن اگر ایک فرض کا دوسرے فرض کی جماعت میں شامل ہو کر ادا کرنا صحیح ہووے تو سب فرضوں کو یہ بات شمول ہو گی مثلاً عصر کی نماز قضا ہووے تو مغرب کی جماعت میں شامل ہو کر ادا کی جائے جیسے مسافر امام کے عقب مقتدی مقیم بقیہ نماز ادا کرتا ہے اور مغرب قضا ہو تو عشاء کی جماعت میں دوسری رکعت میں شامل ہو کر اور عشاء کی نماز قضا ہو تو صبح کی جماعت میں شامل ہو کر ادا کی جائے بلکہ صلوۃ وتر کی جماعت میں شامل ہو کر نماز مغرب ادا کرنا بھی جائز ہو گا حالانکہ اس صورت میں پنجگانہ نمازیں جدا جدا اور مستقل نہ رہیں گی بلکہ مخلوط او رمشتبہ ہو جاویں گی۔ اگر صراحتہً کسی دلیل سے ثابت ہو تو طوعاً و کرہاً تسلیم کیا جائے ورنہ کوئی موقعہ نہیں بلکہ لغو و فضول حرکت ہے۔
جو لوگ کہ اس صورت کو صحیح کہتے ہیں ان کی دلیل صرف ایک قیاس جو کہ مع الفارق اور سرا سر غلط ہے وہ یہ کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز ادا کر کے پھر اپنی قوم کو اسی نماز کی جماعت ادا کراتے تھے۔ ان کی نیت نفل کی اور مقتدیوں کی نیت فرض کی ہوتی تھی ایسے ہی اگر امام کی نیت عصر کی اور مقتدی کی نیت ظہر کی ہو تو نماز صحیح ہونی چاہیے لیکن اس صورت اور صورت سابقہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کیونکہ یہاں ایک ہی وقت کی نماز ہے جو فرض و نفل کے اختلاف سے ادا کی گئی اور وہاں دو قت کی جدا جدا دو نمازیں ہیں جو ایک وقت اور ایک حالت میں ادا کی جاتی ہیں۔ علاوہ بریں یہ قیاص نص صریح کے معارض ہے جو کہ مسند احمد اور فتح الباری سے نقل کیا گیا اس لیے غلط اور مردود ہے۔ اور جو کہ ترمذی اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کا قول مذکور ہے کہ وہ ظہر کی نیت سے عصر کی جماعت میں شامل ہونا جائز فرماتے تھے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو یہ ایک صحابی کا قول ہے جو بمقابلہ مرفوع کے حجت نہیں ہو سکتا علاوہ براں وہ قول اس صورت میں ہے جبکہ ناواقفی سے ظہر کی نیتکے ساتھ عصر کی جماعت میں شامل ہو اور عصر کی جماعت ظہر کی جماعت خیال کرے واقفیت کی حالت میں نہیں۔ واللہ اعلم۔
(حررہ عبد الجبار عمر پوری۔ فتاویٰ عمر پوری ص ۳۸))