السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں نے پچھلے ماہ الاعتصام لگوایا تھا۔ رسالہ اپنی وسعت معلومات کی وجہ سے واقعی بہت اچھا ہے۔ اس سال جلدنمبر۵۰ شمارہ نمبر۱۳ میں ایک مضمون’’فضائل ومسائل عید الاضحی‘‘ میری نظر سے گزرا اس میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ صفحہ ۹ اور ۱۰ پر قربانی کرتے وقت کی دعا :
’إِنِّی وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِینَ…‘ (سنن أبی داؤد،بَابُ مَا یُسْتَحَبُّ مِنَ الضَّحَایَا،رقم: ۲۷۹۵،سنن ابن ماجه،بَابُ أَضَاحِیِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ،رقم:۳۱۲۱)
راقم الحروف کے نزدیک سخت ضعیف ہے۔ یہ روایت ابوداؤد کے ساتھ ’’مسند احمد‘‘، مشکوٰۃ شریف اور اس کے علاوہ اور بھی کتابوں میں مذکور ہے۔ لیکن ہر ایک کے سلسلۂ اسناد میں ضعف پایا جاتا ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں کہ اس پر مزید بحث کروں لیکن اگر تفصیل دیکھنی ہو تو اس کتاب(مشکوٰۃ المصابیح للالبانی) میں مذکور باب کے نیچے دیکھیں۔( فیصل مختار) (۳ جولائی ۱۹۹۸ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
روایتِ ہذا ضعیف ہے کیونکہ اس میں راوی عبدالمطلب بن عبداللہ بن حنطب کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ سے اس کا سماع نہیں لیکن منذری اور ابوحاتم رازی نے کہا ممکن ہے اس کو پایا ہو۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’تہذیب التہذیب‘‘ میں اور ابن ابی حاتم نے’’المراسیل‘‘ میں عَنْ اَبِیہ کہا جابر سے اس کا سماع نہیں لیکن جابر رضی اللہ عنہ کی ایک دوسری روایت جس کو ابویعلیٰ نے ذکر کیا اس کے بارے میں امام ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا اس کی سند حسن درجہ کی ہے۔ اور امام ابوداؤد کا بھی اس پر سکوت ہے۔(بحوالہ مرعاۃ المفاتیح)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب