سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(466) کیا حج پر بار بار جانا جائز ہے ؟

  • 25581
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 693

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حضور نبی کریمﷺنے صرف ایک حج کیا ہے حج زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے۔ کیا حج پر بار بار جانا جائز ہے ؟ چاہے کوئی رشتہ دار وغیرہ تنگدست اور مفلسی میں زندگی گزار رہا ہو؟(محمد طفیل۔لاہور) (۱۶ جولائی ۱۹۹۹ء)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

واقعی حج زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ فرض ادا کرنے کے بعد دیگر اعمال خیر پر توجہ مرکوز کرکے اور اگر کسی وقت کوئی نفلی حج کرلے، تو بہر صورت اس کا بھی جواز ہے۔ حج اور عمرہ کی ترغیب میں وارد عمومی احادیث اس پر دال ہیں۔ فرمایا:

’ العُمْرَةُ إِلَی العُمْرَةِ کَفَّارَةٌ لِمَا بَیْنَهُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَیْسَ لَهُ جَزَاء ٌ إِلَّا الجَنَّةُ۔‘ (صحیح البخاری،بَابُ وُجُوبِ العُمْرَةِ وَفَضْلِهَا،رقم:۱۷۷۳)

نبیﷺ نے ایک حج اس لیے کیا کہ اس کے بعد آپ ﷺ رحلت فرما گئے۔ لیکن حجۃ الوداع میں ہی آئندہ حج کی خواہش کا اظہار فرمایا ہے۔

’ لَعَلِّی لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِی هَذِهِ۔‘ (صحیح مسلم،بَابُ اسْتِحْبَابِ رَمْیِ جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ یَوْمَ النَّحْرِ …الخ ،رقم:۱۲۹۷)

ممکن ہے میں اس سال کے بعد حج نہ کر سکوں۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ متعدد بار حج کا جواز ہے۔ بعد میں خلفائے راشدین کا عمل بھی اس کا مؤید ہے۔

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ حافظ ثناء اللہ مدنی

جلد:3،کتاب الصوم:صفحہ:358

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ