السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کچھ افراد عمرے کے لیے جا رہے ہیں۔ ان میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ خواتین محرم بھی ہیں۔ اور غیر محرم بھی آپ کتاب و سنت کی روشنی مین آگاہ فرمائیں کہ کیا یہ سفر جائز ہے؟ (طاہر مبین،اچھرہ لاہور) (۲۲ دسمبر۲۰۰۰ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ ہذا میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عطائ، سعید بن جبیر، اوزاعی، امام شافعی رحمہ اللہ اور دیگر بہت سے ائمہ کا کہنا ہے کہ عورتوں کی جماعت ہو تو جائز ہے کیونکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر معاون بن جاتی ہیں اور دل مطمئن ہو جاتا ہے جب کہ امام مالک رحمہ اللہ نے باب ہی یہ باندھا ہے کہ’حَجُّ الْمَرْأَة بِغَیْرِ ذِیْ مَحْرَمٍ‘ ’’یعنی امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس عورت کا خاوند نہیں اور اس نے حج نہیں کیا، اگر ان کا کوئی مرد نہ ہو یا ہو مگر ساتھ نہ جا سکے تو وہ عورت فریضۂ حج ترک نہ کرے بلکہ دوسری عورتوں کے ساتھ جائے۔‘‘ (الموطأ مالک،حَجُّ الْمَرْأَۃِ بِغَیْرِ ذِی مَحْرَمٍ،رقم:۱۶۰۹)
عدی بن حاتم کو رسول اﷲﷺ نے فرمایا: عنقریب عورت حج بیت اﷲ کے لیے نکلے گی اس کے ساتھ کوئی نہیں ہو گا۔ اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گی۔‘‘ یعنی ایسا امن ہو گا کہ عورت اکیلی بے خوف و خطر سفر کرے گی۔
اسی طرح کتب احادیث وفقہ میں ہے کہ اگر کوئی عورت کفار کے قبضے میں آ جائے پھر وہ رہائی حاصل کرے تو وہ بالاتفاق اکیلی سفر کر سکتی ہے۔ آپﷺ کی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو بوقتِ ہجرت بعض صحابہ کرام ہی لائے تھے۔
صحیح بخاری ’بَابُ حَجِّ النِّسَآئِ‘ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اجازت سے عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف کے ہمراہ ’’حرم مبارک‘‘ (یعنی ازواجِ مطہرات) حج کو گئے۔ (صحیح البخاری،بَابُ حَجِّ النِّسَاء ِ،رقم:۱۸۶۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب