السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ: ایک آدمی کے پاس اتنی رقم آگئی ہے کہ وہ فریضہ حج ادا کرسکے اور اس وقت اس کی بیٹی بھی جوان ہے، وہ آدمی مذکورہ رقم سے حج ادا کرے یا بیٹی کی شادی کرے؟ (محمد انور،کوٹ لکھپت،لاہور)(۱۷جون۱۹۹۴ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس شخص کے پاس فریضہ حج ادا کرنے کی مالی استطاعت موجود ہے اسے حج کی تیاری کرنی چاہیے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِىٌّ عَنِ العـٰلَمينَ ﴿٩٧﴾... سورة آل عمران
’’اور لوگوں پر اللہ کا حق(یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی تعمیل نہ کرے تو اللہ ہی اہل عالم سے بے نیا زہے۔‘‘
پھر’’صحیح بخاری‘‘میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی رویت میں حج کو اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے اہم ترین رکن قرار دیا گیاہے ۔
نیز اہل علم نے اس کی فرضیت کے لیے جو شروط و قیود ذکر کی ہیں ان میں اس بات کا نام و نشان تک نہیں ملتا کہ جس کی اولاد جوان ہو، حج کی بجائے پہلے ان کے نکاح کرے۔ بہرصورت حج کو نکاح سے منسلک کرنا درست بات نہیں۔ بلاشک بیٹی کے نکاح کا اہتمام بھی اپنی جگہ ایک اہم فریضہ ہے لیکن دینِ اسلام نے بیٹی والوں کو مالی معاملات میں قطعاً کسی شے کا مکلف نہیں ٹھہرایا۔ لہٰذا لڑکی کے والد کو چاہیے کہ موزوں دیندار رشتہ تلاش کرے جو رسومات اور فضول خرچی کی قباحتوں سے مبرا ہو تاکہ جانبین کو راحت و آرام میسر آسکے۔
باعثِ تعجب بات یہ ہے کہ آج کے پر آشوب دور میں دین کے دعویدار بھی اسراف و تبذیر کے سمندر میں مستغرق نظر آتے ہیں۔ جس سے اصلاحی کنارہ کچھ دور ہی دکھائی دیتا ہے لیکن ناممکن نہیں، لہٰذا اہل تدین مخلصین کا فرض ہے کہ مل بیٹھ کر مسئلہ ہذا پر غوروخوض کریں تاکہ قیمتی زندگی کو اسلام کی سنہری تعلیمات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ واللہ ولی التوفیق۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب