السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صلح حدیبیہ میں حضور اور صحابہ بغرض عمرہ گئے تھے۔ معتمر(عمرہ کرنے والے) کے لیے تو قربانی لازم نہیں ہے اور اپنے ساتھ لے جانے کا سوال ہے کہ حضور اور صحابہ کیوں لے کر گئے اور روک دیے جانے کے بعد حدیبیہ میں ہی قربانی کردی گئی۔ ﴿فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْهَدْیِ﴾(البقرۃ: ۱۹۶) کا کیا مطلب ہے ؟ کیا حضور کو اور صحابہ کو یہ بتا دیا گیا تھا کہ تم روک دیے جاؤ گے اور تمہارے لیے اس وقت قربانی کرنا ضروری ہے ؟ لہٰذا ساتھ لیتے جاؤ۔ اگر پہلے سے روک دیے جانے کا علم نہ ہو تو اچانک قربانی کہاں سے لائے گا؟ براہِ کرم اس کی وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے دل و دماغ میں وہ اذیت ناک منظر ہو جس کا مسلمانوں کو کفار کی طرف سے اس وقت سامنا تھا۔ اس زمانے میں مسلمان تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ کبھی دوبارہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے بحالتِ خواب چونکہ اپنے نبیﷺ کو امید کی کرن دکھائی تھی جس کی بناء پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شوق ِ زیارت کا اضافہ ہوا۔
اندریںحالات دشمن کی طرف سے رکاوٹ پیدا کرنے کے امکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتاتھا۔ دشمن کو مزید تسلی و اطمینان دلانے کے لیے کہ ہمارا ارادہ حرب و قتال کا نہیں ، جانوروں کی گردنوں میں پٹے ڈال دیے جو امن کی علامت تھی۔ اس کے باوجود ان کے سامنے سرداری اورچودھراہٹ مانع آئی تو مسلمانوں کو حدودِ حرم کے قریب ہی جانور ذبح کرکے اس شرط پر واپس آنا پڑا کہ آئندہ سال عمرہ کریں گے۔ معاہدہ کی بناء پر یہ سال چونکہ امن و سلامتی کا سال تھا اس لیے دوسرے سال مسلمان ہدایا(قربانی کے جانور) ساتھ لے کر نہیں آئے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ راستے میں روکے جانے کی صورت میں جیسی قربانی میسر ہوگی، ذبح کرنے کا جواز ہے۔ اونٹ ، گائے بکری اور جانور دستیاب نہ ہونے کی صورت میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام احمد اور ایک قول کے مطابق امام شافعی فرماتے ہیں کہ د س روزے رکھے۔(المغنی:۲۰۰/۵)
بعض نے کہا اگر جانور نہ مل سکے تو اسی طرح حلال ہو جائے۔ بعد میں میسر آنے پر قربانی کردے، بعض نے کہا فدیۃ الاذی ادا کرے۔ قریب ترین مسلک یہ ہے کہ محصر(روکا گیا شخص) تمتع پر قیاس کرتے ہوئے دس روزے رکھے۔(تفسیر اضواء البیان:۱۱۷/۱)
نبیﷺ اور صحابہ کرام کو روکے جانے کا پیشگی علم نہ تھا لیکن خطرہ ضرور تھا، اس لیے پہلے سے انتظام کرنا پڑا، یاد رہے حج یا عمرے سے روکا گیا آدمی اسی جگہ جانور ذبح کرکے حلال ہو سکتا ہے۔ قربانی کا حرم کی حدود میں داخل ہونا ضروری نہیں، جس طرح کہ بعض اہل علم کا مسلک ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب