السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ یہ ہے کہ والد صاحب مجھے جو دو ہزار روپے دوائیوں کا خرچ دیتے ہیں۔ اس میں سے جتنا ہو سکے۔ غریبوں خصوصاً گھریلو ملازموں(جو کوٹھی کے سرونٹ کوارٹر میں رہتے ہیں) کی مدد کرتی رہتی ہوں۔ اس کے علاوہ والدہ صاحبہ اور والد صاحب کی اجازت کے بغیر ان کے پیسے نکال کر جب ملازموں کو ضرورت ہو، دیتی رہتی ہوں۔ ملازم ایک کمانے والا ہے۔۸۔۱۰ افراد (بیوی بچے) کھانے والے ہیں۔ اس کی تنخواہ ۲۰۰۰ روپے ماہانہ ہے۔ گزارا انتہائی تنگی سے ہوتا ہے۔ ہمارے گھر کا ہر فرد حتی الوسع ان کی ہر طرح کی مدد کرتا رہتا ہے۔
اب مسئلہ یہ پوچھنا ہے کہ میں جو والدین کی اجازت کے بغیر ان کی رقم نکال کر غریبوں کو اس وقت دیتی ہوں جب ان کو ضرورت ہو ، تو کیا یہ چوری سمجھی جائے گی ؟اور کیا مجھے گناہ ملے گا۔ اس مسئلہ کا حل میں نے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب سے اور حافظ ثناء اللہ پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور خطیب جامع مسجد آریہ نگر سمن آباد سے ٹیلیفون پر پوچھا تھا تو انھوں نے کہا تھا گناہ بہت کم ہے اور ثواب بہت زیادہ۔ اب میں اپنی تسلی کے لیے یہ چاہتی ہوں کہ میرے پاس لکھا ہوا ثبوت ہو۔ آپ حضرات کے جواب کی منتظر رہوں گی۔ (نصرت ہاشمی مزنگ چونگی) (۲۱ جون ۱۹۹۶ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
والد محترم کی اجازت کے بغیر ان کے مال سے غرباء و مساکین کی اعانت کرنا درست فعل نہیں۔ اس بات کا علم والد صاحب کو تفصیلی یا اجمالی ہونا ضروری ہے کیونکہ مال کے مالک وہ ہیں آپ نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس سے بدگمانی بھی پیدا ہو سکتی ہے جس سے گھریلوزندگی کے مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔ بعض احادیث میں ہے:
’اِتَّقُوا مَوَاضِعَ التُّهَمْ ۔‘(السنن الکبرٰی للبیهقی،بَابُ الْمَرْأَةِ تَزُورُ زَوْجَهَا فِی اعْتِکَافِهِ وَمَا فِی تِلْكَ الْقِصَّةِ مِنَ السُّنَّةِ فِی تَرْكِ الْوُقُوفِ فِی مَوَاضِعِ التُّهَمِ.،رقم:۸۶۰۵،شعب الایمان،فَصْلٌ فِیمَنْ أَبَعْدَ نَفْسَهُ عَنْ مَوَاضِعِ التُّهَمِ،رقم:۶۳۸۱)
’’ اپنے کو بدظنی کے مقام سے بچانا چاہیے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب