السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زکوٰۃ کے مصارف میں سے فی سبیل اﷲ میں کون کون سے امور داخل ہیں؟ (محمد جہانگیر پوٹھ شیرڈ ڈیال میر پور کے۔ اے) (۲۶ دسمبر ۱۹۹۷ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مصارفِ زکوٰۃ میں لفظ فی سبیل اﷲمیں جہاد بالاتفاق داخل ہے۔ حج بھی فی سبیل اﷲ میں داخل ہے۔ اس کی بات ’’ابوداؤد‘‘ باب العمرۃ میں صریح حدیث موجود ہے۔ اور ’’نیل الاوطار‘‘ کتاب الزکوٰۃ باب الصرف فی سبیل اﷲ میں بعض اور روایتوں کا بھی ذکر ہے۔
جن میں تصریح ہے کہ حج فی سبیل اﷲ میں داخل ہے اور بعض روایتوں میں عمرہ کی بابت بھی تصریح ہے۔ اگر عمرہ کی تصریح نہ ہوتی تو بھی عمرہ حج کے حکم میں داخل ہوتا لیکن بعض روایتوں میں تصریح آنے سے اور پختگی ہو گئی۔ (فتاویٰ اہلحدیث: ۲/ ۴۹۳)
لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے۔ فی سبیل اﷲ کا لفظ عام ہے۔ ہر کارِ خیر کو شامل ہے۔ چنانچہ ’’تفسیر فتح البیان‘‘ اور ’’تفسیر کبیر‘‘ میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔
ہمارے شیخ محدث روپڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اگر اس پر کوئی عمل کرے تو اس پر اعتراض تو نہیں ہو سکتا مگر چونکہ زکوٰۃ فرضی صدقہ ہے۔ اس کو ایسی طرز پر ادا نہ کرنا چاہیے۔ جس میں تردّد ہے۔ دیکھئے نماز میں جب شک ہو جاتا ہے کہ ایک رکعت پڑھی ہے یا دو، تو حکم ہے کہ ایک رکعت اور پڑھے تاکہ شک سے نکل جائے۔ پس زکوٰۃ بھی قرآن میں نماز کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اس میں بھی احتیاط چاہیے۔ اس لیے بہتر ہے فی سبیل اﷲ سے مراد جہاد لیا جائے یا حج عمرہ کیونکہ جہاد تو بالا تفاق مراد ہے اور حج عمرہ حدیث نے داخل کر دیا ہے۔ مگر جیسا عام ہے ویسا رکھا جائے تو پھر فقراء مساکین وغیرہ کا الگ ذکر کیا ہے۔ اس لیے ظاہر یہی ہے کہ اس سے مراد خاص ہے اور خاص بغیر دلیل کے مراد نہیں ہو سکتا۔ دلیل یا تو آیت ہے یا اتفاقِ مفسرین ہے۔ جیسا کہ حج عمرہ ہونے پر ہے۔ باقی کی بابت کوئی دلیل نہیں۔ (حوالہ مذکور: ۲/ ۴۹۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب