السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل ہر شہر اور قصبہ میں کارکنان جمعیت اہل حدیث اور مرکز الدعوۃ میں مختلف مسائل پر چپقلش چل رہی ہے۔ ہر فریق اپنے اپنے جماعتی جریدہ کے مسائل کو حتمی سمجھ کر دوسرے کو غلط قرار دے رہا ہے۔ عید الاضحی کے موقع پر مرکز الدعوۃ کے لڑکوں نے جہاد کے نام پر قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے کی مہم چلائی ۔ ہمارے قریبی شہر کے ایک عالم نے کہا کہ قربانی کی کھالوں کے حق دار مقامی غریب اور مسکین لوگ ہیں۔ یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ مساکین کا حق چھین کر آپ کشمیری مجاہدین کے حوالے کردیں ، کشمیری مجاہدوں کی مدد کرنی ہے تو اصل مال سے کریں۔ اور مرکز الدعوۃ کے لڑکوں کے سپرد کرنے کی بجائے مہاجرین اور مجاہدین کو خود دے کرآئیں۔ مرکز الدعوۃ کے کارکنوں نے شور مچا دیا کہ یہ لوگ جہاد کے منکر ہیں۔ مدارس نے آج تک کیا کیا ہے۔ اصل کام تو جہاد ہے جس سے یہ لوگ بھاگتے ہیں۔وغیرہ وغیرہ۔
اب آپ سے گزارش ہے کہ بغیر کسی کی رعایت کرتے ہوئے قرآن وسنت کی رُو سے اس مسئلہ کی وضاحت کریں کہ قربانی کی کھالوں کے اصل حق دار کون ہیں؟ کیا نبیﷺ کے زمانہ میں فطرانہ ، صدقہ، خیرات اور زکوٰۃ اور کھالیں اکٹھی کرکے مجاہدوں کو دی جاتی تھیں؟ (اے ٹی سلفی، بورے والا) (۴ اگست ۱۹۹۵ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صدقہ خیرات کے اصل مستحق مقامی فقراء و مساکین ہیں چنانچہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ ’’زاد المعاد‘‘ (۴۶/۳) میں فرماتے ہیں
’’جس کا حاصل یہ ہے کہ قوم نجیب کے قاصد نبی اکرمﷺ کی خدمت میںحاضر ہوئے تو اپنے ساتھ صدقات بھی لیتے آئے۔ اس پر آپﷺ نے ان کی عزت کی اور فرمایا کہ ان صدقات کو اپنے فقیروں میں تقسیم کردو۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہﷺ! ہمارے فقیروں سے جو کچھ بچا ہے وہی لائے ہیں۔‘‘
اور حدیث میں ہے:
’ فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ قَدْ فَرَضَ عَلَیْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِهِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ۔‘ (متفق علیه، صحیح البخاری،بَابُ أَخْذِ الصَّدَقَةِ مِنَ الأَغْنِیَاء ِ وَتُرَدَّ فِی الفُقَرَاء ِ حَیْثُ کَانُوا،رقم:۱۴۹۶، صحیح مسلم،باب الدعاء إلی الشهادتین وشرائع الإسلام،رقم:۱۹)
’’نبی ﷺ نے فرمایا، معاذ اہل یمن کو اس بات سے آگاہ کرنا کہ اللہ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ ان کے مالداروںسے لے کر انہی کے محتاجوں پر اسے لوٹایا جائے۔‘‘
اس حدیث سے اس امر کی تائید لی جا سکتی ہے۔
’ قَالَ الْإِسْمَاعِیلِیُّ ظَاهِرُ (حَدِیثِ الْبَابِ أَنَّ الصَّدَقَةَ تُرَدُّ عَلَی فُقَرَاءِ من أخذت من أغنیائهم ۔‘ فتح الباری:۳۵۷/۳)
اس سے یہ بات مترشح ہے کہ مقامی حق داروں کا خیال نہ رکھنا حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے جو مومن کی شان سے بعید ہے۔ لہٰذا جہادی مہم کے علمبرداروں کے لیے ضروری ہے کہ غیروں کے استحقاقات کو بھی نظر میں رکھیں۔ اصل یہ ہے کہ ہر جگہ مقامی بیت المال قائم کیا جائے اور مستحقین کا اندراج کیا جائے۔ پھر ہر صاحب حاجت کا خیال رکھا جائے۔ مقامی ضروریات کے علاوہ جہادی مہم میں بھی بھرپور حصہ لینا چاہیے۔
مسلمانوں کی جہادی تنظیموں کے ذمہ داران پر فرض عائد ہوتا ہے کہ آپس میں متحد ہو کر
’وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّةٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِهِ ‘(صحیح البخاری،بَابُ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَاء ِ الإِمَامِ وَیُتَّقَی بِهِ،رقم:۲۹۵۷)کا نقشہ پیش کریں بصورتِ دیگر صحیح نتائج کی توقع کرنا عبث ہے۔ افغانستان کی واضح مثال اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ صالح قیادت کے فقدان کی وجہ سے فوائد و ثمرات کا حصول مشکل امر بنا ہوا ہے۔ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ
نیز امراء جہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میں الہ کے ہاں جوابدہی کا احساس پیدا کریں کہ ہم نے عدالتِ عالیہ الٰہیہ میں پائی پائی کا حساب دینا ہے۔ اس وقت کی آمد سے قبل قوم کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عمال سے حساب لیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لوگ سر محفل حساب پوچھا کرتے تھے۔ کتاب الاموال اور کتاب الخراج ابویوسف میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔
رسول ِ اکرمﷺ کے عہد میں جہاد کے عام مالی موارد مالِ فئی، خراج، مال غنیمت وغیرہ ہوا کرتے تھے۔’جُعِلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی‘(صحیح البخاری،بَابُ مَا قِیلَ فِی الرِّمَاحِ،قبل الحدیث: ۲۹۱۴) بوقت ضرورت عمومی صدقہ مصرف ’’فی سبیل اللہ‘‘کے ضمن میں مالِ زکوٰۃ وغیرہ بھی شامل ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب