السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر کسی شخص نے اپنی لڑکی کی شادی کردی ہے اور وہ لڑکی اپنے گھر میں بڑی تنگدستی کی زندگی بسر کر رہی ہے، کیا اس کا باپ اسے زکوٰۃ دے سکتا ہے؟ ( ایک سائل: مین بازار کامونکے) (۲۳ جون ۱۹۹۵ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
فقروفاقہ کی صورت میں والد اپنی شادی شدہ بیٹی کو زکوٰۃ کا مال دے سکتا ہے۔’’صحیح بخاری‘‘میں ہے:
’’ایک شخص یزید نے صدقہ کا مال مسجد میں رکھا تاکہ کسی حق دار کو دے دیا جائے۔ اتفاقاً بیٹے نے آکر اٹھا لیا۔ باپ کو پتہ لگا تو کہا’وَاللّٰہِ مَا اِیَّاکَ اَرَدْتُّ‘ ’’اللہ کی قسم میں نے تجھے دینے کا ارادہ نہیں کیا۔‘‘ جب رسول اللہﷺ کو اس بات کا علم ہوا تو فرمایا:’لَکَ مَا نَوَیْتَ یَا یَزِیْد وَ لَكَ مَا اَخَذْتَ یَا مَعْنُ ‘(صحیح البخاری،بَابُ إِذَا تَصَدَّقَ عَلَی ابْنِهِ وَهُوَ لاَ یَشْعُرُ ، رقم:۱۴۲۲)
’’یعنی یزید تیرے لیے وہ کچھ ہے جو تو نے نیت کی ہے اور اے معن حاصل کردہ مال کا حقدار تو ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث میں تصریح لڑکے کی ہے لیکن بحیثیت اولاددونوں کا حکم یکساں ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جب کہ خاوند کسب سے عاری ہو۔ یا لاپتہ ہو یا وفات پا چکا ہو وغیرہ وغیرہ۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب