السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک سکول میں غریب نادار، بے سہارا اور معاشرے کے نظر انداز کیے گئے بچوں کو قرآن مجید ناظرہ،نماز، نمازِ جنازہ، مسنون دعائیں، کلمے، اور عملی دینی تربیت کے ساتھ ساتھ پرائمری تک مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ بچوں کو کتابیں، کاپیاں، یونیفارم اور بعض اوقات بیگ بھی مفت فراہم کیے جاتے ہیں۔ اس سکول میں اکثر ورکشاپوں اور کوٹھیوں میں کام کرنے والے ملازمین کے بچے تعلیم وتربیت حاصل کرتے ہیں۔ کیا ان بچوں اور اس انتظام میں مشغول عملے کے لیے زکوٰۃ جائز ہے ؟ (سیکرٹری جامع شان اسلام، گلبرگ،لاہور) (۹ اگست ۲۰۰۲ء)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورتِ مذکورہ میں فقراء مساکین بچوں پر مالِ زکوٰۃ صرف ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ مستحق زکوٰۃ صفت سے متصف ہیں اور اس جگہ کام کرنے والا عملہ بھی اس سے مستفید ہو سکتاہے۔ کیونکہ وہ عاملین کے زمرے میں شامل ہیں جو مصرف ِ زکوٰۃ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب